"حماس نے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر جو حملے کیے ان کا کوئی جواز، کوئی وضاحت اور کو ئی عذر موجود نہیں ہے لیکن ایک عام اسرائیلی اب فلسطینی دہشت گردوں اور دہشت گردی سے متاثرفلسطینیوں میں کوئی فرق کرنے کے لیے نہ تو تیار ہے اور نہ ہی ایسا کرنا چاہتا ہے ۔"
یہ الفاظ ہیں اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’ربیز فار ہیومن رائٹس گروپ‘ کے ایک 64 سالہ سسر گرم کارکن ربی ایرک اشرمین کے جو مقبوضہ مغربی کنارے میں رملہ سے باہر فلسطینیوں کے زیتون کے ایک باغ کی حفاطت کرتے ہیں اور فلسطینی کاشتکاروں کو اسرائیلی آباد کاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد سے بچانے کی کوششیں کررہے ہیں ۔
امریکی نژاد اسرائیلی یہودی ربی اشرمین ایک عرصے سے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے تشدد کے خلا ف مہم میں شامل ہیں۔اور امن کے پرچار کی ان کی کہانی سوشل میڈیا پر بارہا شئیر کی گئی ہے۔
وہ اپنی حفاظت کے لئے "باڈی آرمر‘ پہنتے ہیں جسے آپ زرہ بکتر کہہ سکتے ہیں ، جس کا بھاری وزن انہیں سیدھا کھڑا بھی نہیں ہونے دیتا، لیکن اپنی حفاظت کے لیے یہ ان کی مجبوری ہے۔تاہم 64 سالہ سسر گرم کارکن کو تشدد کا کوئی خوف نہیں ہے ۔
ربی کہتے ہیں کہ اسرائیلیوں کے درد اور غصے کی وجہ سے اس وقت کوئی بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے تیار نہیں ہے ۔قریب ہی ان کے ساتھی ، جو تعداد میں اگرچہ مٹھی بھر ہی ہیں ، ان کی اس بات کو غلط ثابت کررہے ہیں ۔
وہ ا ن آباد کاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں جو کسی بھی وقت وہاں آکر کاشتکاروں کو ہراسا ں کر سکتے ہیں اور ان سے لڑ سکتے ہیں۔وہ حفاطت کے ساتھ ساتھ ان کے کام میں مدد بھی کرتے ہیں۔
ربی ایرک اشرمین نے کہا کہ ہم جو کچھ کررہے تھے اس کے لیے ہمیشہ اسرائیلیوں کی ایک خاصی تعداد کم از کم کسی نہ کسی حد تک اس کی حمایت یا اس سے اتفاق کرتی تھی لیکن آج ہمارے کام کی کوئی بھی حمایت نہیں کرتا۔
اسرائیل کے مطابق جنوبی اسرائیل پر سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد جس میں لگ بھگ بارہ سو لوگ ہلاک ہوئے ، جن کی اکثریت عام شہریوں کی تھی، مغربی کنارے میں جس پر اسرائیل نے 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے ، اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سےفلسطینیوں پر حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہو گیا ہے ۔
حماس کو امریکہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔
SEE ALSO: مغربی کنارے میں 2005 کے بعد سے مہلک ترین اسرائیلی حملہاقوام متحدہ کے مطابق سات اکتوبر سے پہلے آباد کاروں کے ہاتھوں روزانہ اوسطاً تشدد کے تین واقعات پیش آتے تھے لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ تعداد بڑھ کر سات ہو گئی ہے۔
انسانی حقوق کے اسرائیلی گروپ بیت اسلام کے مطابق اکتوبر کے آخر میں طیبہ سے شمال میں نو میل کے فاصلے پر ایک کاشتکار کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ اپنے زیتون کے درختوں کی دیکھ بھال کررہا تھا۔
زیتون کے درخت اور فلسطینی معیشت
مغربی کنارے میں زیتون کےالاکھوں درخت ہیں جو فلسطینیوں کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ فلسطینی زیتون سے کشید کیے گئے تیل سے لے کر صابن ، کاسمیٹکس اور اس سے تیار کی گئی دوسری مصنوعات دنیا بھر میں بر آمد کر تے ہیں اور اسے قدرتی علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
زراعت ہی فلسطینیوں کی معیشت کی بنیاد ہے اس لیے زیتون کی کاشت سے آبادی کے لیے آمدنی کے ذرائع پیدا کیے جاتے ہیں۔
تاہم قبضہ کرنے والے آباد کار ان درختوں کو اکھاڑنے اور کاٹنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور زمین پر تنازعوں کے باعث فلسطینی کاشتکاروں اور آباد کاروں کے درمیان عشروں سے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں ۔
گروپ کا کہنا ہے کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جب فوجی وردیوں میں ملبوس اور حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہتھیارو ں کا استعمال کرتے ہوئے، آباد کاروں نے قریبی فلسطینی کمیونٹیز پر حملے کیے ہیں ۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ آف ڈیوٹی فوجیوں کی کارروائی دکھائی دیتی ہے اور یہ کہ اس نے اس کے بارے میں ایک انکوائری شروع کر دی ہے ۔
قریبی گاؤں Dura al-Karia کے ایک 63 سالہ فلسطینی سمیر عبدالاکریم نے جس کا خاندن کاشتکاری کرتا ہے بتایا کہ سات اکتوبر کے بعد سے آباد کاروں کےمتعلق ہمارا خوف دوگنا ہو گیا ہے ۔ ہم اپنی زمین پر نہیں جا سکتے کیوں کہ آباد کار اور اسرائیلی فوجی ہماری جانب فائرنگ کرتے ہیں۔
عبدالکریم کی بیوی نے کہا کہ اس سے قبل زیتون کی چنائی کا مہینہ ایک تہوار کا مہینہ ہوا کرتا تھا لیکن آج ویسا کچھ نہیں ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے زیتون بہت اہم ہیں اور ان کے بغیر ہم گزارا نہیں کر سکتے یہ ہماری زندگیوں کی ایک انتہائی بنیادی ضرورت ہیں ۔
حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر ایک زمینی ، بحری اور فضائی کارروائی شروع کر رکھی ہے جس میں حماس کی زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق فلسطینیوں کےمحصورعلاقے میں 11 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں ۔
رملہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی وزارت صحت کے مطابق مغربی آباد کاروں کی جانب سے یا بڑھتے ہوئے فوجی حملوں میں مغربی کنارے میں 180 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں ان میں کچھ عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے انسانی حقوق سے متعلق ربیز کے ڈائریکٹر دانی براڈسکی کہتے ہیں کہ ہمارے نکتہ نظر سے آباد کار ایک اور محاذ کھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم امن کی دعا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں گے ہم اس کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔
اس رپورٹ کا مواداے ایف پی سے لیا گیا ہے۔