افغانستان میں طالبان کی حکومت کے عبوری وزیرِ اعظم ملا محمد حسن اخوند نے عالمی برادری خصوصاََ اسلامی ممالک سے ایک بار پھر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔
ستمبر میں قائم مقام وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ملا حسن اخوند پہلی مرتبہ یوں منظرِ عام پر آئے ہیں۔ طالبان کی حالیہ حکومت میں کابل میں پہلی اقتصادی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی طالبان حکومت پر پابندیوں کے باعث ملک کو شدید مالی اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان کی حکومت کی اس اقتصادی کانفرنس میں 20 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔
کانفرنس سے خطاب میں افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ بعض ممالک افغانستان کے ساتھ اگرچہ معاشی تعاون میں پیش پیش ہیں البتہ قلیل مدت کے لیے امداد افغانستان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ بنیادی مسائل کے مستقل حل کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کو برسرِ اقتدار آئے ہوئے پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے البتہ اب بھی وہ مسائل کے حل کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی سامنے نہیں لا سکے ہیں۔
افغان تجزیہ کار عبد النصیر یاسینی کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طالبان بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کیوں کہ ابھی تک ان کی حکومت کو کسی ایک ملک نے بھی تسلیم نہیں کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ 1990 کے عشرے میں قائم ہونے والی طالبان کی پہلی حکومت کو بھی اقتصادی بحران کا سامنا تھا۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کے علاوہ کسی ملک نے انھیں رسمی طور پر بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان قیادت کی جانب سے بار بار ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی اپیل یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ عوام کی جانب سے شدید دباؤ میں ہیں کیوں کہ انھیں اب ایک مختلف عوام کا سامنا ہے۔ افغانستان کے خدوخال تبدیل ہو چکے ہیں۔ لوگوں کی سوچ پختہ ہو گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انھوں نے واضح کیا کہ طالبان کے آنے سے قبل لگ بھگ 50 لاکھ کے قریب لوگ کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ تھے۔ انھیں کام کے بدلے باقاعدہ معاوضہ مل رہا تھا۔ طالبان کے آنے کے بعد سے سب کچھ تعطل کا شکار ہے۔ لوگ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی افغانستان میں رہنے کو ترجیح نہیں دیتا۔
عبد النصیر یاسینی کے بقول بینکنگ سیکٹر مکمل طور پر درہم برہم ہے۔ اس وقت طالبان کا اکتفا صرف پاکستان پر ہے البتہ پاکستان خود بیرونی قرضوں تلے دبا ہوا ہے اور اپنی معاشی حالت کو سنبھالنے کے لیے آئی ایم ایف کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہو گی۔ عالمی دنیا کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کے لیے انھیں خواتین کے حقوق، تعلیم، انسانی حقوق کا احترام اور آزادیٴ اظہار کے معاملات میں لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
بدھ کو بین الاقوامی تنظیم برائے محنت آئی ایل او کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے پانچ لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ 2021 کی تیسری سہ ماہی میں خواتین کی ملازمت کی شرح میں 16 فی صد کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زراعت، سول سروسز اور تعمیراتی شعبے کو بھی دھچکا لگا ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ گئی ہے کیوں کہ یہی وہ بنیادی شعبہ جات تھے جو عوام کو روزگار کی سہولت مہیا کرتے تھے۔
کانفرنس میں عالمی برادری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے طالبان کے مقرر کردہ وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے وہ تمام تر وعدے پورے کیے ہیں جو عالمی برادری ان سے تقاضہ کر رہی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سب سے بڑی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تو عالمی برادری خود کر رہی ہے جو یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ افغان عوام اقتصادی مشکل سے دو چار ہیں، اس کے باوجود انہوں نے مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقتصادی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے امریکہ، اقوامِ متحدہ اور مغربی ممالک سے اپیل کی کہ وہ افغانستان کے مرکزی بینک سے تمام پابندیاں ختم کریں تا کہ لوگ با آسانی بینک کے ذریعے کاروبار کر سکیں۔
امیر خان متقی کا مزید کہنا تھا کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے خواہاں ہیں۔ افغانستان میں امن کی صورتِ حال بہتر ہو چکی ہے۔
ان کے مطابق طالبان کی حکومت افغانستان کی سر زمین کو جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی رابطے کے لیے استعمال کرنے کی خواہاں ہے اور اس سلسلے میں وہ پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور روس سے بھی بات چیت کر رہے ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ڈیبورا لائنز نے کہا کہ افغانستان شدید اقتصادی مسائل سے دوچار ہے اور تمام ممالک کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ طالبان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور آئے روز قتل و غارت کے واقعات ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ زینب کو مبینہ طور پر کابل میں ایک چیک پوائنٹ پر نشانہ بنایا گیا تھا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس اہلکار کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ مزید کارروائی جاری ہے۔
افغانستان کی گزشتہ حکومت میں پارلیمان کی رکن شکریہ بارکزئی کا کہنا ہے کہ حالات اور واقعات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے اپنے طور طریقے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں لائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ طالبان افغانستان کے موجودہ معاشی بحران کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغان عوام کو اپنے ہی مرتب کردہ قوانین کے نیچے رکھیں۔ طالبان کسی بھی صورت اپنی پالیسیوں میں اصلاحات نہیں لانا چاہتے۔
طالبان کی عالمی برادری سے شناخت پر بات کرتے ہوئے شکریہ بارکزئی نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے خواتین پر بے جا پابندیاں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور افغان عوام کی حالات زار عالمی برادری کو قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔
اگست میں اقتدار کے حصول کے بعد سے طالبان نے گاڑیوں میں موسیقی پر پابندی، 70 کلومیٹر سے زائد فاصلے کے لیے عورت کے لیے محرم کے ساتھ ہونا، مخلوط تعلیم کا خاتمہ اور خواتین کے روزگار کے حوالے سے متعدد پابندیاں عائد کی ہیں۔