افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے خطے پر ممکنہ اثرات

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے خطے پر ممکنہ اثرات

امریکہ کی خواہش ہے کہ افغانستان کے حالات مستحکم ہوں اور اس ملک کی سرزمین دوبارہ امریکہ یا دنیا کے کسی اور ملک پر دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ کی جا سکے۔ اس سلسلے میں فوجی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ معاشی امداد پر بھی توجہ بڑھائی گئی ہے۔ یہ حقیقت بھی واضح ہو چکی ہے کہ فوجی کاروائیوں سے افغانستان کا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور خطے کے دوسرے ممالک کی طرف یہ موقف بھی سامنے آچکا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ ملک میں امن اور استحکام لانے کی خاطر کیے گئے کسی بھی سیاسی معاہدے کی حمایت کی جائے ۔ امریکی محکمہء خارجہ میں پاکستان اور افغانستان کے لیے نائب خصوصی مندوب وکرم سنگھ کا کہناہے کہ سیاسی عمل شروع کرنے کے لیے یہ مناسب وقت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ طالبان پر امریکہ کی سوچ سے زیادہ فوجی دباؤہے۔افغانستان استحکام سے کافی دور ہے اور اسے ابھی کافی مراحل طے کرنے ہیں۔ لیکن امریکی افواج کے انخلا سے کیا افغانستان ناکام ہو کر دوبارہ طالبان کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ایسا ہو گا۔

افغانستان کے مستقبل کے لیے امریکہ اور مغرب کے علاوہ جو دو ممالک سب سے زیادہ فکر مند ہیں وہ ہیں پاکستان اور بھارت۔ سابق افغان وزیر داخلہ علی جلالی کے مطابق مختلف ممالک کے افغانستان میں مختلف مفادات ہیں۔

ان کا کہناہےکہ خطے کے دوسرے ممالک اور افغانستان کے ہمسایہ ملک ایسا کردار ادا کر سکتے ہیں جو مشکلات بھی پیدا کر سکتا ہے اور استحکام لانے میں مدد گار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے علاقائی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے افغانستان کا مستقبل کس طرح دیکھتے ہیں۔

ایک تحقیقی ادارے یونائٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی جانب سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں یہ تشویش موجود ہے کہ اگر افغانستان کے حالات پھر سے خراب ہوتے ہیں تو پاکستان کے پشتون علاقے اس سے براہِ راست متاثر ہوں گے۔ معید یوسف یونائٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا ئی امور کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں دیکھنا چاہتا۔

http://www.youtube.com/embed/Bf3BlhMOBKc

معید یوسف کہتے ہیں کہ آپ پاکستان میں افغانوں کی سربراہی میں ایک مصالحتی عمل کے بارے میں سنتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ سیاسی عمل کی شروعات اور اس کے نتائج سے متعلق توقعات مختلف ہو سکتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کو یہ اطمینان ہے کہ اگر واقعی افغان مصالحتی کوششوں کی سربراہی کرتے ہیں تو ان کے خدشات خود بخود حل ہو جائیں۔

ایشلے ٹیلس کا تعلق واشنگٹن کے تھنک ٹینک کارنیگی اینڈاومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان سے دہشت گرد تنظیمیں اس کی زمین پر حملے کریں۔

ان کا کے خیال میں اگر یہ مصالحتی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ تو ان کی ناکامی ایک ایسے وقت میں واضح ہو گی جب امریکہ بڑی تعداد میں اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکال چکا ہو گا۔ اور اس بات کو بھی کافی مدت گزر چکی ہوگی کہ عالمی برادری نے شائد افغانستان کی امداد کے لیے کوئی حکمتِ عملی بنائی ہو یا نہ بنائی ہو۔

امریکہ میں افغان جنگ کی مدت اور اس پر آنے والے اخراجات پر بحث میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ جس کے باعث امریکی حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ افغانستان آئندہ چند برسووں میں اپنی سیکیورٹی سنبھالنے کے قابل بن جائے۔

واشنگٹن کے مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ، کابل میں ایک ایسی حکومت دیکھنے کے خواہشمند ہیں جو افغانستان میں استحکام کے ساتھ ان کے سیکیورٹی خدشات کا بھی دور کرے۔