اتوار کے روز امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کے سامنے افغان شہریوں اور افغان نژاد امریکی شہریوں سمیت مختلف طبقہ ہائے فکر کے افراد نے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے طالبان مخالف بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔
مظاہرین نے افغانستان میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں تشویش ظاہر کی اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر تنقید کرتے ہوئےکہا کہ یہ انخلا وقت سے پہلےکیا گیا ہے۔
افغان نژاد امریکی شہری مختار نے وائس آف امریکہ کی رشئین سروس سے بات کرتے ہوئے طالبان کی جانب سے کابل کا دوبارہ کنٹرول سنبھالنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ لوگوں کو اپنے پیاروں کے لے روتے دیکھ رہے ہیں، ماؤں کو اپنے بیٹوں کے لیے روتے دیکھ رہے ہیں تو انہیں تکلیف محسوس ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جلد ہی پاکستان افغانستان میں تشکیل پانے والے نئے سیٹ اپ کے ساتھ امن کے بہانے سمجھوتہ کر لے گا اور افغانستان بقول ان کے ’’پاکستان نمبر دو بنا دیا جائے گا۔‘‘
SEE ALSO: کابل پر طالبان کا قبضہ: ’افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے‘انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ افغانستان مستقبل میں دہشت گردی کا مرکز بن سکتا ہے۔
مظاہرین میں شامل مونیکا ہاشم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات بالکل اسی کی دہائی کی طرح محسوس ہوتے ہیں جب امریکہ نے افغانستان کے معاملات میں دخل دیا اور پھر افغانوں کا اکیلا چھوڑ دیا۔ انہوں نے افغانستان میں عورتوں کے حقوق پر فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان 97 سے 2001 تک افغانستان میں حکومت کرتے رہے ہیں اور اس وقت عورتوں کی وہاں کوئی بھی حیثیت نہیں تھی۔ بقول ان کے عورتوں کی زندگی غلاموں کی طرح تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ وہ عورتیں جو بیس برس سے کم عمر ہیں اور انہوں نے طالبان کے زیر سایہ زندگی کبھی نہیں گزاری، وہ آنے والے حالات کا کیسے مقابلہ کریں گی؟
افغان صدر عبدالغنی کے ملک چھوڑنے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ افغان سیاستدانوں کے ملک چھوڑنے سے زیادہ نقصان تو غریبوں اور عورتوں کا ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کرسٹینا فش بیک نامی سفید فام خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر افغانستان میں تعینات تھے، جن کے افغان مترجم اس وقت کابل میں اپنی جان بچانے کے لیے چھپے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے شوہر اپنے افغان مترجم کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور ان کی سلامتی کے لئے بہت فکرمند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں مسلسل کوششیں کر رہے ہیں اور یہ سوچ کر وہ کئی راتوں سے سو نہیں سکے کہ ’’جنہوں نے اس کی مدد کی، جنہوں نے اس کے ساتھ کام کیا۔ وہ سب اب خطرے میں ہیں۔ وہ شاید بچ نہ سکیں۔‘‘
انہوں نے افغانستان سے فوری انخلا کی موجودہ امریکہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا افغانستان سے انخلا کا فیصلہ بہتر انداز میں ہو سکتا تھا۔ انہوں نے اسے امریکہ کی 'اخلاقی ناکامی' قرار دیا۔
انہوں نے کہا ’’میں سمجھتی ہوں کہ وہ افغان جنہوں نے ہماری مدد کی، ہمیں ان کو محفوظ جگہ تک پہنچانے کے لئے ان کی مدد کرنی چاہئے۔‘‘
امریکی بحریہ سے تعلق رکھنے والے اور افغانستان میں بقول ان کے 2012 سے 2016 تک ثقافتی مشیر کے طور پر کام کرنے والے صافی رؤف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے ایک افغان شہری شاہ زمان کی ایک آنکھ 2012 میں ایک دھماکے میں ضائع ہو گئی تھی اور وہ تین برس تک ہسپتال میں علاج کرواتے رہے۔
SEE ALSO: طالبان کا بغیر مزاحمت کابل پر قبضہ، 'جنگجو سرداروں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا'انہوں نے کہا کہ وہ تمام امریکی فوجی جو اس حملے میں زخمی ہوئے انہیں امریکہ کے فوجی اعزاز پرپل ہارٹ کا مستحق سمجھا گیا اور وہ ملک کے ہیرو ہیں۔ لیکن شاہ زمان کا ایس آئی وی ویزا بقول ان کے اب تک معمولی دستاویز کی وجہ سے منظور نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ شاہ زمان اب بھی کابل ہیں اور امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ انہوں نے بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے تمام لوگوں کو جنہوں نے امریکی فوج کی مدد کی اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے نکالیں۔
یاد رہے کہ اتوار کے روز امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے طالبان کی جانب سے افغانستان کے کنٹرول اور کابل پہنچنے کو 'دل دہلا دینے' والا واقعہ قرار ہوئے کہا تھا کہ امریکی فورسز ملک سے تمام امریکیوں اور امریکہ کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کو نکالنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے لیے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق اینٹنی بلنکن نے اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کے پروگرام اسٹیٹ آف دی یونین میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے لیے کابل میں موجود عملے اور امریکہ کی مدد کرنے والوں کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
ان کے بقول، "ہم نے طالبان سے کوئی مطالبہ نہیں کیا ، ہم نے انہیں کہا تھا کہ سفارتی عملے کے انخلا کے عمل کے دوران اگر انہوں نے ہمارے اہلکاروں یا ہمارے آپریشنز میں مداخلت کی کوشش کی تو اس کے جواب میں فوری اور فیصلہ کن ردِ عمل سامنے آئے گا۔"