طالبان نے جس رفتار سے افغانستان پر قبضہ کیا اس سے دنیا حیرت زدہ ہے۔ لیکن یہ تیز ترین پیش قدمی ان کی جنگی صلاحیتوں ہی کا نتیجہ نہیں بلکہ ماہرین کے مطابق افغان فورسز کے ہتھیار ڈالنے اور سمجھوتوں کی وجہ سے طالبان کی پیش قدمی کی راہ ہموار ہوئی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان نے پروپیگنڈے، نفسیاتی جنگ کے حربوں اور دھمکیوں سے ملی جلی ایک ایسی حکمتِ عملی ترتیب دی تھی جس کے نتیجے میں لڑائی کے بغیر ہی وہ ایک کے بعد ایک شہر پر قبضہ جماتے گئے اور بالآخر دارالحکومت کابل پہنچ گئے۔
اس صورتِ حال میں یہ اہم سوال ہے کہ افغان فورسز اور جنگجو سرداروں کے ہوتے ہوئے طالبان نے مختصر وقت میں کابل پر قبضہ کیسے جما لیا۔
افغان فوج کیوں مقابلہ نہیں کرسکی؟
جب مئی میں غیر ملکی افواج نے انخلا شروع کیا تھا تو اس وقت امریکہ اور افغانستان کی حکومت کو اعتماد تھا کہ افغان فوج طالبان کا مقابلہ کرلے گی۔
کم از کم اعداد و شمار کے حساب سے افغان فوج کو طالبان پر برتری حاصل تھی۔ ان کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی تھی اور اربوں ڈالر کے ہتھیار اور آلات بھی ان کے پاس تھے۔
لیکن حقیقی صورتِ حال یہ تھی کہ افغان فوج کو کئی برسوں سے کرپشن، نااہل قیادت، ناقص تربیت اور بے دلی جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ فوج سے فرار کے واقعات عام تھے اور امریکہ کے اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار) جان سوپک بہت پہلے خبردار کر چکے تھے کہ افغان فوج بطور ادارہ پائیدار نہیں ہے۔
افغان فورسز نے اس موسمِ گرما میں بعض علاقوں جیسے جنوب میں واقع لشکر گاہ میں طالبان کی بھرپور مزاحمت کی۔ لیکن اس بار انہیں طالبان کا مقابلہ کرتے ہوئے امریکہ کی فضائی اور فوجی مدد حاصل نہیں تھی۔
اس فوج کو ایک ایسے دشمن کا سامنا تھا جس کی تعداد کم ہونے کے باجود وہ پوری طرح یکسو تھا۔ اسی لیے ایک کے بعد ایک شہر طالبان کے قبضے میں آتا گیا اور کئی فوجیوں اور بعض مواقع پر پوری یونٹ نے فرار اختیار کیا یا ہتھیار ڈال دیے۔
افغان فورسز کی حکمتِ عملی کیا تھی؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ جب گزشتہ برس امریکہ نے طالبان کے ساتھ افغانستان سے انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے تھے تو افغان فورسز میں اسی وقت سے بے دلی پھیل گئی تھی اور وہ ہمت ہارتے گئے۔
طالبان ایک بار پھر اقتدار کی جانب بڑھ رہے تھے جب کہ مایوسی کا شکار ہونے والے افغان فوجیوں میں شکستگی اور تنہائی کا احساس پیدا ہو گیا تھا۔
طالبان نے حکومتی فورسز پر حملے جاری رکھے لیکن ساتھ ہی اُن پر صحافیوں اور سماجی کارکنان کو ہدف بنانے کے الزامات بھی لگتے رہے جس کا مقصد خوف کی فضا پیدا کرنا تھا۔
طالبان جنگجوؤں نے پروپیگنڈے اور نفسیاتی حربوں سے اپنی فتح کو ناگزیر بنا کر پیش کیا۔
بعض علاقوں میں فوجیوں اور مقامی حکام کو بڑی تعداد میں ایسے ٹیکسٹ میسجز موصول ہوتے تھے جن میں ان پر برے انجام سے بچنے کے لیے ہتھیار ڈالنے یا طالبان سے تعاون کرنے پر زور دیا جاتا تھا۔
ان میں سے پسپائی اختیار کرنے والے کئی فوجیوں کو محفوظ راستہ دیا گیا اور بعض نے قبائلی یا علاقائی عمائدین کی مدد سے امان حاصل کی۔
طالبان مخالف جنگو سرداروں نے کیا کیا؟
افغان فورسز جب طالبان کی پیش قدمی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں تو افغانستان کے کئی معروف جنگجو سرداروں نے اپنے علاقوں کا رخ کیا۔ ان سرداروں نے اعلانات کیے تھے کہ اگر طالبان نے ان کے شہروں کا رُخ کیا تو وہ جم کر مقابلہ کریں گے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کا مقابلے کرنا تو کجا انہیں افغان حکومت کی بقا خطرے میں نظر آنے لگی۔ جنگجو سرداروں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا۔
بغیر کسی لڑائی کے ان کے یہ شہر طالبان کے ہاتھ میں چلے گئے۔ مغربی شہر ہرات پر قبضہ جمانے کے بعد جنگجو سردار اسماعیل خان کو طالبان نے گرفتار کیا۔
شمال کے معروف جنگجو سردار عبدالرشید دوستم اور عطا محمد نور ازبکستان فرار ہوگئے اور ان کی ملیشیا میں شامل افراد اپنے ہتھیار، گاڑیاں اور وردیاں تک مزارِ شریف میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
پیش قدمی تیز ترین کیوں تھی؟
مبینہ طور پر طالبان نے مئی میں پیش قدمی کا آغاز کرنے سے قبل سمجھوتوں اور دستبرداری کے لیے بندوبست کرنا شروع کردیا تھا۔
عام فوجیوں سے لے کر نچلے اور متوسط درجے کے حکام، صوبائی گورنروں اور وزرا سے طالبان نے سمجھوتوں کے لیے رابطے شروع کر دیے تھے۔ ان کا پیغام بہت سادہ تھا کہ جب طالبان جیتنے والے ہیں تو لڑنے کا کیا فائدہ؟ ان کی یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی۔
کابل کی جانب جب طالبان نے اپنی حتمی پیش قدمی کا آغاز کیا تو سڑکوں پر لاشیں نہیں تھیں اور نہ ہی جنگی محاذوں پر خوںریزی ہوئی۔ البتہ طالبان اور حکومتی عہدے دار بہت پرسکون ماحول میں شہروں اور صوبوں کی حوالگی کی کارروائی کررہے تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ایک ماہ قبل اندازہ ظاہر کیا تھا افغان حکومت اگلے 90 روز میں گر سکتی ہے۔
لیکن پہلے صوبائی دارالحکومت پر قبضے کے بعد طالبان کو کابل پہنچنے میں دو ہفتے سے بھی کم وقت لگا۔