افغانستان میں قبائلی عمائدین اور علما پر مشتمل 'لویہ جرگے' نے عالمی برادری سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تین روزہ لویہ جرگہ کے اختتام پرجاری کیے گئے ایک اعلامیہ میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان کے مسائل اور شہریوں کی بہبود کے لیے ناگزیر ہے کہ عالمی برادری ملک میں طالبان حکومت کو تسلیم کر لے۔
تین ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل لویہ جرگے میں افغانستان کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں جو ملک کے اہم فیصلوں کے لیے مشاورت کرتے ہیں۔ گزشتہ افغان حکومت میں لویہ جرگہ میں خواتین کو بھی نمائندگی دی جاتی تھی، تاہم اس مرتبہ خواتین کو لویہ جرگہ میں شرکت کی اجاز ت نہیں دی گئی۔
لویہ جرگہ کی 11 نکاتی قرارداد میں طالبان حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسلامی مقدس قوانین کے مطابق انصاف، مذہبی اور جدید تعلیم، صحت، زراعت اورصنعتوں کے فروغ سمیت اقلیتوں، بچوں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔
رپورٹس کے مطابق اجتماع میں شریک حاضرین کی اکثریت طالبان عہدیداروں اور ان کے حامیوں کی تھی جن میں زیادہ تر علما تھے۔
طالبان جو افغانستان پر پچھلے سال 15 اگست سے قابض ہیں، نے اس اجتماع کو افغانستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اہم فورم قرار دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جرگے میں شریک عالم مجیب الرحمن انصاری کے مطابق اجتماع کے اختتام پر 11 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا جس میں خطے کے ممالک، بین الاقوامی برادری، اقوامِ متحدہ، اسلامی تنظیموں اور دیگر سے طالبان کے زیر اقتدار افغانستان کو تسلیم کرنے، طالبان قبضے کے بعد عائد کردہ پابندیوں کو ہٹانے اور منجمد افغان اثاثوں کو بحال کرنےکے مطالبات کیے گئے۔
انصاری کا مزید کہنا تھا کہ اجتماع میں شریک ہونے والے علما اور عمائدین نے افغان طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوند زادہ کے ساتھ اپنی وفاداری کی تجدید کی۔ ہیبت اللہ اخوند زادہ، جو عوامی اجتماعات میں کم ہی نظر آتے ہیں، قندھار سے کابل آئے اور جمعے کو اجتماع سے خطاب کیا۔
SEE ALSO: غیر ملکیوں کو ہمیں حکم نہیں دینا چاہیے، طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہخیال کیا جا رہا ہے کہ طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد یہ ان کا افغان دارالحکومت کا پہلا دورہ ہے۔
اخوند زادہ نے اپنے ایک گھنٹے کے خطاب میں جسے سرکاری ریڈیو سے نشر کیا گیا نے افغانستان پر طالبان کے قبضے کو 'مسلم دنیا کی فتح' قرار دیا۔
واضح رہے کہ طالبان پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے جامع حکومت کے قیام کے لیے دباؤ ہے۔
بین الاقوامی برادری طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا تعاون کرنے سے گریزاں ہے۔ خاص طور پر جب سے طالبان نے ملک میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کو محدود کر دیا تھا۔اقلیتوں اور خواتین کے متعلق طالبان کی پالیسیاں ان کے 1990 کی دہائی کی سخت گیر حکمرانی کی یاد دلاتی ہیں۔