افغانستان میں تعینات اتحادی افواج نے کہا ہے کہ مقامی فوج کی وردی میں ملبوس شخص نے جمعہ کو فائرنگ کرکے نیٹو کے ایک اہلکار کو ہلاک کر دیا۔
نیٹو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں لیکن اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ تاہم افغان حکام نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ یہ واقعہ صوبہ کُنڑ میں پیش آیا۔
اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے اس تازہ ترین حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
افغان فوجیوں یا پھر ان کی وردی میں ملبوس عسکریت پسندوں کی جانب سے نیٹو اہلکاروں پر حملے کا رواں سال پیش آنے والا یہ بیسواں واقعہ ہے، اور ان حملوں میں مجموعی طور پر 13 غیر ملکی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغان فوجیوں کی جانب سے نیٹو اہلکاروں پر حملوں کی عمومی وجہ طالبان کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ اتحادی افواج سے متعلق ذاتی اختلافات رہے ہیں۔
دریں اثنا افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی یان کوبِش نے کہا ہے کہ رواں سال کے پہلے چار ماہ میں لڑائی کے باعث افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں گزشتہ سال کی نسبت 20 فیصد کمی آئی ہے۔
سلوواکیہ کے سابق وزیرِ خارجہ نے خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ’’اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ... ممکن ہے کہ پہلے چار ماہ میں لڑائی کی شدت کم رہی ہو۔ بلاشبہ حکومت کی حامی فورسز اور بین الاقوامی افواج بھی شہری ہلاکتوں میں کمی کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔‘‘
یان کوبِش نے جنوری سے اپریل تک ہونے والی شہری ہلاکتوں کی تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ یہ رواں ماہ امریکی شہر شکاگو میں افغانستان کے بارے میں ہونے والی کانفرنس سے قبل جاری کیے جائیں گے۔
سال 2011ء میں سڑک کنارے نصب کردہ بموں، خودکش حملوں اور دیگر پُرتشدد واقعات میں 3,000 سے زائد افغان شہری ہلاک اور 4,500 زخمی ہوئے تھے، اور یہ تعداد 2010ء کی نسبت پانچ فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔