امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستان میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی ہے۔ جمعرات کی شام اپنے دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچنے سے پہلے ہلری کلنٹن نے کہا کہ طالبان کو افغانستان میں جاری امن مذاکرات میں حصہ لینا ہوگا بصورت دیگر اُن کے خلاف بین الاقوامی افواج کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
پاکستان کے دورے میں انکے ساتھ سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریس اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی بھی موجود ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات میں امریکی سفیر کیمرون منٹر اور پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے مارک گراسمین بھی شامل تھے۔ پاکستان کی طرف سے ملاقات میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، وزیر خزانہ حفیظ شیخ، آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی، آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل پاشا بھی شامل تھے۔
پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹد پریس آف پاکستان کے مطابق وزیر اعظم گیلانی نے ملاقات کے دوران امریکی وزیر خارجہ کے سامنے پاکستانی عوام کے موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو امن کو ایک موقع دینا چاہیے، جو کہ انکے مطابق آل پارٹیز کانفرنس میں ایک قرارداد کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت خوشگوار اور بلاتکلف ہوئی۔ وزیر اعظم نے امریکی وزیر خارجہ پر زور دیا کہ امریکہ پاکستان سے اختلافات کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات کو نقصان نہ پہنچنے دے۔ ایسا کرنا دونوں ملکوں کے باہمی مفاد میں نہیں ہے۔
اپنے دورے میں ہلری کلنٹن صدر آصف علی زرداری اور ازیر خارجہ حنا ربانی کھر سے علیحدہ ملاقاتیں بھی کریں گی۔
جمعرات کو کابل میں افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ بات چیت کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ افغانستان کے مستبقل میں ہمسایہ ملک پاکستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور تینوں ملکوں کو اس سلسلے میں مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔
اس سے قبل ہلری کلنٹن اور صدر کرزئی نے طالبان سے مفاہمت اور افغانستان میں سلامتی کی ذمہ داریوں کی بین الاقوامی افواج سے مقامی سکیورٹی فورسز کو منتقلی کے اُمور پر تبادلہ خیال کیا۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا جو اُن کے بقول افغانستان اور دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
افغان صدر سے ملاقات سے قبل ہلری کلنٹن نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنوں، ماہرین تعلیم اور سیاسی رہنماؤں سے امریکی سفارت خانے میں ملاقات کی۔ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اُن کے دورہ کابل کا مقصد سچائی جاننا ہے۔ ’’میں سننا چاہتی ہوں کہ افغانستان کے لوگ مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔‘‘
سفارت خانے میں ہلری کلنٹن سے ملاقات کرنے والوں میں مقتول سابق صدر برہان الدین ربانی کے بیٹے صلاح الدین بھی شامل تھے۔
امریکی وزیر خارجہ نے صلاح الدین ربانی سے مخاطب ہو کر کہا کہ اُن کے والد ’’ایک بہادر شخص تھے اور وہ صحیح اقدامات کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔‘‘ مقتول صدر کے بیٹے کا جواب تھا کہ ’’ہم اُن کی سوچ کو آگے بڑھائیں گے۔‘‘
برہان الدین ربانی کی گزشتہ ماہ ایک خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن و مصالحت کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
امریکی اور افغان عہدے دار نے حالیہ دنوں میں بار ہا پاکستان پر طالبان عسکریت پسندوں کی حمایت اور برہان الدین ربانی پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی میں کردار کے الزامات عائد کیے ہیں، لیکن پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت انھیں بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر چکی ہے۔
افغانستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد جمعرات کی شب امریکی وزیر خارجہ اسلام آباد پہنچی ہیں جہاں وہ پاکستانی قائدین سے ملاقاتوں میں طالبان سے امن و مفاہمت کے عمل اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے تعاون سمیت دوطرفہ تعلقات پر بات چیت کریں گی۔
اُن کے وفد میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس، امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی اور پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی مارک گراسمین بھی شامل ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق اپنی ہم منصب حنا ربانی کھر سے باضابطہ بات چیت کے بعد ہلری کلنٹن جمعہ کو ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں اپنے دورے کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کریں گی۔
اُن کی مصروفیات میں طالب علموں اور پیشہ ور افراد کے ٹاؤن ہال طرز کے اجلاس سے خطاب بھی شامل ہے۔