افغانستان کی قومی فٹ بال ٹیم کی لڑکیاں ہفتوں سے ملک کے اندر جگہ جگہ گھوم رہی تھیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ ان کی منزل کیا ہے۔ تاہم، اپنے سفر کے اس مرحلے میں وہ پرتگال پہنچ گئی ہیں۔
اس میں سے ایک ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، دوسری کا ارادہ فلم پروڈیوسر بننے کا ہے۔ ایک اور لڑکی انجینئر بننے کا خواب بن رہی ہے۔ پروفیشنل فٹ بال کھیلنے والی ان لڑکیوں کے اپنے اپنے خواب ہیں۔
پھر آخر اتوار کی صبح انہیں یہ پیغام ملا کہ ایک چارٹر پرواز لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے لے جائے گی؛ لیکن کہاں، یہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ پہلے بسیں انہیں ہوائی اڈے پر لے جائیں گی اور پھر طیارہ ان کا منتظر ہو گا۔
فٹ بال ٹیم کی کپتان فرخندہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ انہوں نے اپنے گھر اور سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد سے، 14سے 16 سال کی یہ لڑکیاں اور ان کے اہل خانہ اس خوف میں تھے کہ طالبان کے اقتدار میں ان کی زندگی کس طرح کی ہو گی، کیونکہ انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کو کھیلنے سے روک دیا ہے، جب کہ یہ لڑکیاں خواتین کے حقوق کے لیے بھی پرجوش کردار ادا کرتی رہی تھیں۔
اتوار کے روز ان کی چارٹر فلائٹ پرتگال کے شہر لزبن کے ایئرپورٹ پر اتری۔
اس ہفتے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ انٹرویو میں، کیپٹن فرخندہ، ٹیم کے ارکان، ان کے خاندان کے کچھ افراد اور فٹبال فیڈریشن کے عملے نے افغانستان میں اپنے آخری ایام، انہیں ملک سے نکالنے کی بین الاقوامی کوششوں اور آزادی کے وعدوں پر بات کی۔
سی آئی اے اور ایئر فورس کے تجربہ کار نک میک کینلے نے کہا کہ اس ریسکیو مشن کو 'آپریشن ساکر بالز' کا نام دیا گیا تھا۔ یہ مشن طالبان، سابق امریکی فوجی اور انٹیلی جنس حکام، امریکی سین کرس کونز، امریکی اتحادی اور انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی اتحاد کے تعاون کیا گیا ہے۔ اس مشن کے تحت 50 افغان خاندانوں کی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔
ریسکیو کی کوششوں سے 80 افراد کو وہاں سے نکالا گیا جن میں ٹیم کے 26 ارکان کے ساتھ ساتھ دیگر بالغ افراد اور بچے بھی شامل ہیں۔
کچھ لڑکیوں نے اے پی سے ایک مترجم کے ذریعے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ فٹبال کھیلنا جاری رکھنا چاہتی ہیں اور وہ فٹبال کے سپر اسٹار کرسٹیانو رونالڈو، مانچسٹر یونائیٹڈ کے فارورڈ اور پرتگال کے مقامی کھلاڑیوں سے ملنے کی خواہش رکھتی ہیں۔
افغانستان کی خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی گول کیپر اور کوچ وڈا زمرائی جو 1996 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سویڈن چلی گئیں تھین نے کہا کہ یہ لڑکیاں افغانستان سے نکلنے کے بعد بہت پرجوش تھیں۔
زمرائی کا کہنا تھا کہ وہ اب خواب دیکھ سکتی ہیں اور اپنا کھیل جاری رکھ سکتی ہیں۔