امریکہ کے بعد برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے بھی افغانستان سے اپنے فوجی دستے واپس بلانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
جمعرات کے روز امریکہ کے تینوں یورپی اتحادی ممالک کی جانب سے افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کے ساتھ جاری لڑائی میں اپنی شرکت کے خاتمے کے منصوبوں کا اعلان صدر اوباما کی بدھ کی شب ہونے والی اس تقریر کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے افغانستان میں تعینات ایک لاکھ امریکی فوجیوں میں سے 33 ہزار فوجیوں کو آئندہ 14 ماہ میں واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم امریکہ اور نیٹو کی سربراہی میں افغانستان میں جاری کارروائی میں شریک مذکورہ تینوں ممالک کے فوجیوں کی تعدادنسبتاً کم ہے۔
برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے امریکی صدر اوباما کے خطاب سے قبل ان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس کے بعد برطانوی رہنما نے تصدیق کی کہ امریکہ کی طرح ان کا ملک بھی 2014ء کے اختتام تک افغانستان میں اپنے فوجی کردار کو ختم کردے گا جس کے بعد مقامی افغان اپنی سلامتی کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
افغانستان میں تعینات برطانوی فوجی دستہ 9500 فوجیوں پر مشتمل ہے جو امریکہ کے بعد وہاں تعینات غیر ملکی فوجیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
دریں اثناء جرمنی کے وزیرِخارجہ گیوڈو ویسٹرویلے نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک افغانستان میں تعینات اپنے 5 ہزار فوجیوں کی تعداد میں کمی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس پر رواں برس کے اختتام سے عمل درآمد کا آغاز کیا جائے گا۔
جرمنی کی افغان جنگ میں شرکت جرمن عوام میں انتہائی غیر مقبول ہے۔ افغان جنگ میں جنوری 2002ء میں شریک ہونے کے بعد سے اب تک افغانستان میں کل 52 جرمن فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی نے بھی افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں کے انخلاء کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانسیسی فوجیوں کو امریکہ کی جانب سے اعلان کردہ نظام الاوقات اور تعداد کی نسبت سے افغانستان سے واپس بلایا جائے گا۔ افغان جنگ کے دوران فرانس کے 62 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ افغانستان میں تعینات اس کے فوجیوں کی کل تعداد 4 ہزار ہے۔