افغانستان پر امریکہ کے حملے کو 18 سال مکمل ہوگئے۔ اس جنگ سے جہاں اور بہت سے طبقات پر اثرات پڑے ہیں۔ وہیں بچوں کی زندگی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔
فرانس کے خبر رساں ادارے ' اے ایف پی' کے مطابق ہلمند کے 13 سالہ بوٹ پالش کرنے والے بچے کی تعلیم افغان جنگ کی نذر ہوئی ہے۔ اسی طرح 11 سالہ شبیر بھی کابل کی گلیوں میں خشک میوہ جات فروخت کرنے پر مجبور ہوا جبکہ نو سالہ نعمت اللہ پارک میں گھوم پھر کر اپنے لیے کام تلاش کرنے میں مصروف نظر آیا۔
اسی طرح افغانستان میں بچوں کی بہت بڑی تعداد گزشتہ 18 سال سے جاری جنگ سے متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت شاید ہی کوئی ایسا بچہ ہو جس نے جنگ نہ دیکھی ہو یا ملک میں جاری مسلح لڑائی سے واقف نہ ہو۔
کابل کے ہائی اسکول میں زیر تعلیم 17 سالہ محمد مبین کہتے ہیں کہ افغانستان میں امن کا قیام بس ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔
محمد مبین مزید کہتے ہیں کہ افغانستان بس اسی صورت میں ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے جب یہاں امن قائم ہو جائے۔
یاد رہے کہ سات اکتوبر 2001 کو امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے لیے حملہ کیا تھا۔ ابتدائی طور پر فضائی کارروائی کی گئی تھی بعد ازاں زمینی افواج بھیجی گئی تھیں۔
افغانستان پر حملے کا جواز امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر، پینٹا گون اور دیگر مقامات پر القاعدہ کے جہازوں کے ذریعے حملوں کو بنایا گیا تھا۔ القاعدہ کے ان مبینہ حملوں میں تین ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔
طالبان نے اس وقت اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کی افغانستان میں موجود دیگر قیادت کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا۔
طالبان کی حکومت کا خاتمہ تو چند دن میں ہو گیا تھا اور کچھ وقت میں امریکہ سمیت دیگر ممالک کی مدد سے نئی حکومت بھی قائم ہو گئی تھی تاہم اس کے بعد سے ملک میں جنگ جاری ہے۔
اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں 18 سال سے جاری لڑائی امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے۔ جس میں طالبان کی جانب سے حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
حالیہ برسوں میں افغانستان میں بد امنی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر ہی پڑا ہے۔
اقوام متحدہ کی دستیاب اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی تین کروڑ 20 لاکھ آبادی میں 42 فی صد کی عمر 14 سال سے کم ہے۔
کابل کے رہائشی 18 سالہ سید ابراہیم میڈیکل کے طالب علم ہیں۔ سید ابراہیم کے مطابق جب سے ہماری پیدائش ہوئی ہے اس وقت سے افغانستان میں جنگ اور تنازعات ہی جاری ہیں۔ ہم نے کبھی ملک میں امن قائم ہوتے ہیں دیکھا۔
اقوام متحدہ نے گشتہ ہفتے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2015 سے 2018 کے درمیان 14 ہزار بچے ایسے تھے جو کسی نہ کسی صورت تنازعات سے شدید متاثرہ تھے جبکہ یہ تعداد گزشتہ چار سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے 'سیو دی چلڈرن' کے افغانستان کے ڈائریکٹر اون وان مانین کے مطابق تصور کریں کہ کوئی 18 سال کا ہو رہا ہو اور اسے صرف جنگ کا ہی معلوم ہو جبکہ آپ کا پورا بچپن صرف مسلح حملوں سے متعلق سننے میں گزر گیا ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں زندگی کا مطلب ہے کہ روز آپ کو دھماکے ہونے کا خوف ہو۔ اسکول جانے کی گنجائش نہیں کیونکہ امن قائم نہیں جبکہ آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ آپ کے والدین یا بہن بھائی گھر واپس آ سکیں گے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے حوالے سے ذیلی ادارے دی یون این چلڈرن فنڈ (یونیسف) کا کہنا ہے کہ 2017 کے مقابلے میں 2018 میں افغانستان میں اسکولوں ہر حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
یونیسیف کے مطابق 2018 میں 1000 اسکولوں کو جنگ کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔
صوبہ غزنی کے رہائشی 11 سالہ صابر کا کہنا ہے کہ میں اسکول نہیں جاتا کیونکہ میرے پاس وسائل نہیں ہیں۔ مجھے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔
صابر اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے غزنی سے کابل آئے اور کابل کی گلیوں میں خشک میوہ جات بیچتے ہیں۔
افغانستان پر حملے کے بعد کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی زندگی میں کسی حد تک تبدیلی آئی ہے کیونکہ 2001 سے قبل طالبان کی حکومت میں لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کی اجازت نہیں تھی۔
کابل سمیت بعد شہری علاقوں میں اسکول اور جامعات موجود ہیں جبکہ ان تعلیمی اداروں میں موجود نوجوان نسل طالبان کے دور کو نہیں جانتے کہ اس میں کیا کیا پابندیاں عائد تھیں۔
ملک میں غربت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اکثر غربت کے شکار خاندان بچوں کی تعلیم ترک کروا کر انہیں اسکول بھیجنے کے بجائے کام کاج پر بھیجنے پر مجبور ہے۔ جہاں ملک کی بد امنی کی شکار گلیوں میں یہ بچے چھوٹے موٹے کام کرکے گھر چلانے میں معاونت کرتے ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 37 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ ان میں بھی اکثریت لڑکیوں کی ہے۔
'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال سے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری تھے جس کے بعد بین الافغان بات چیت کا عمل شروع ہونے کا امکان تھا۔ جس سے جنگ بندی ممکن ہو سکتی تھی۔ لیکن امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ مذکرات ایک دم ہی معطل کر دیے تھے جبکہ انہوں نے طالبان کے پرتشدد رویے کا کہہ کر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔