افغان پولیس نے ایک 15 سالہ لڑکی کو اس کے سسرالی رشتے داروں کے قبضے سے آزاد کرالیا ہے جنہوں نے اسے دو ماہ سے قید میں رکھا ہوا تھا۔
افغان حکام کے مطابق پری گل نامی لڑکی کو پیر کے روز ایک کاروائی کے دوران شمالی مشرقی صوبے بغلان سے بازیاب کیا گیا جہاں وہ اپنے شوہر کے گھر کے تہہ خانے میں قید تھی۔
افغان حکام نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ لڑکی کے چہرے اور جسم پر بدترین تشدد کیا گیا ہے جب کہ اس کی ناخن بھی اکھاڑ لیے گئے ہیں۔
حکام نے گھر پر چھاپے کے دوران پری گل کی ساس سمیت تین خواتین کو حراست میں لیا ہے جب کہ اس کا شوہر موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
پولیس کے مطابق پری گل کے والدین نے اپنی بیٹی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی جس پر پولیس نے لڑکی کی تلاش شروع کی۔
پولیس حکام کے مطابق لڑکی کو اس کے سسرالی رشتے دار جسم فروشی پر مجبور کر رہے تھے جس سے انکار پر انہوں نے اسے ایک ایسے کمرے میں قید کردیا تھا جہاں کوئی کھڑکی یا روشن دان موجود نہیں تھا۔
پولیس حکام کے مطابق پری گل کی سات ماہ قبل 14 برس کی عمر میں شادی ہوئی تھی جب کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے سسرالی رشتے داروں کی قید میں تھی۔
بغلان کی صوبائی حکومت کے شعبہ امورِ خواتین کی ڈائریکٹر رحیمہ ظریفی نے 'وائس آف امریکہ' کی 'دری سروس' کو بتایا ہے کہ لڑکی پر بہیمانہ جسمانی اور روحانی تشدد کیا گیا ہے۔
ظریفی کے مطابق لڑکی کے جسم پہ موجود زخم جلد بھرجائیں گے تاہم اسے ذہنی طور پر صحت مند ہونے میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔
افغانستان کےقوانین 16 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کی اجازت نہیں دیتے، جس کے باعث پری گل کی شادی کا عدالت میں اندراج نہیں کرایا گیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق افغان خواتین کی لگ بھگ نصف تعداد کی شادی 16 سال کی قانونی عمر سے قبل ہی کردی جاتی ہے جس کے سبب افغانستان میں زچگی کے دوران ہونےو الی ہلاکتوں اور دیگر پیچیدگیوں کی شرح خاصی زیادہ ہے۔