لویہ جرگہ میں سیاسی مخالفین کی عدم شمولیت، امن کوششوں کے لیے غیر سودمند قرار

فائل

امریکی سفارت کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صدر اشرف غنی کی جانب سے حال ہی میں بلائے جانے والا لویہ جرگہ قیام امن کے سلسلے میں کی جانے والی امریکی کوششوں کیلئے ’’ایک دھچکہ‘‘ ہے۔ ماہرین، اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’صدر اشرف غنی اپنے سیاسی حریفوں کو اس جرگے میں شرکت کیلئے آمادہ کرنے میں ناکام رہے‘‘۔

اس مہینے کابل میں شروع ہونے والے لویہ جرگہ میں 3000 سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی اور افغانستان میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ جرگے نے بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کی کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں کابل حکومت کو شامل کیا جائے۔

تاہم، اس جرگے کے حوالے سے صدر غنی کے اہم سیاسی حریفوں نے جرگے میں شرکت نہیں کی، جس سے اس کی اہمیت متاثر ہوئی۔ سیاسی حریفوں میں سابق افغان صدر حامد کرزئی، صدارتی امیدوار حنیف امتار اور افغانستان کے چیف اگزیکٹو، عبداللہ عبداللہ شامل ہیں۔

دوسری جانب، امریکی عہدیداروں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ صدر اشرف غنی کی حکومت کو ایک جائز مذاکراتی فریق تسلیم کریں، تاکہ امن کیلئے ایک خاکہ تیار کرنے کے سلسلے میں تمام افغان فریقین کے درمیان اتفاقِ رائے ہو سکے۔

لویہ جرگے کے انعقاد سے ٹھیک ایک دن پہلے، امریکہ کے اعلٰی مذاکرات کار، زلمے خلیل زاد نے طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کریں اور افغانستان میں امن کیلئے جنگ بندی پر رضامند ہو جائیں۔

طالبان کا اصرار ہے کہ جب تک امریکی افواج کا انخلا نہیں ہوتا، وہ افغان گروپوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے۔ امریکہ، افغانستان کے اندر امن کی خاطر علاقائی اتفاقِ رائے حاصل کرنے کے لئے مستقل کوششیں کرتا رہا ہے۔

گزشتہ مہینے یعنی 25 اپریل کو امریکہ، چین اور روس نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کو واپس بلانے اور افغانوں کی قیادت میں امن عمل کے حصول پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

افغانستان اور پاکستان کیلئے سابق پرنسپل نائب خصوصی نمائندے جیرٹ بلانک کا کہنا ہے کہ ’’تمام صدارتی امیدواروں نے لویہ جرگے میں شرکت سے گریز کیا، تو پھر اس کا نقصان ہی ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے خلاف ایک متحدہ افغان موقف اختیار کرنے کے بجائے، ’’اس سے گہرے اختلافات سامنے آئے جو کہ نقصان دہ امر ہے‘‘۔

جیرٹ بلانک نے کہا کہ ’’الیکشن کمیشن کے سابق سربراہ ضیا الحق امرخیل لویہ جرگے کے اہم ترین منتظمین میں شامل تھے، جبکہ انہیں جعل سازی کے الزامات پر مستعفی ہونا پڑا‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’جس طریقے سے لویہ جرگہ بلایا گیا، اس سے حقیقی معنوں میں، افغان سیاست اور افغان معاشرے میں تقسیم کا اظہار ہوتا ہے، کجا یہ کہ اس سے اختلافات کو ختم کرنے میں مدد ملتی۔ اور بلاشبہ یہ امن عمل کیلئے بدقسمتی کی بات ہے‘‘۔

یہاں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ سے وابستہ، ڈاکٹر مارون وائین بوم نے لویہ جرگہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس اجتماع کا اصل مقصد یہ تھا کہ اشرف غنی کے اس مطالبے کی توثیق کی جائے کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ کسی امن معاہدے کیلئے طالبان سے مذاکرات کرتے ہوئے کابل کی حکومت کو بھی اس میں شامل کرے۔

تاہم، ڈاکٹر وائین بوم کا کہنا ہے کہ چونکہ صدارتی انتخابات جلد منعقد ہونے والے ہیں۔ اس لئے صدر غنی کے سیاسی حریف، اس اقدام کو اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے کے لیے ایک چال کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ دوسری جانب، طالبان اس بات کی کوشش میں ہیں کہ بعض گروپوں سے بات چیت پر رضامندی کا اظہار کر کے اور چند دیگر کو نظر انداز کر کے، افغان فریقین کے درمیان خلیج پیدا کی جائے۔ ڈاکٹر وائین بوم کا کہنا ہے کہ ’’افغانستان کے سیاسی دھڑوں کو تقسیم کرنے کے معاملے میں، طالبان کافی موثر رہے ہیں‘‘۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اختلافات کے اس مظاہرے سے امریکہ کے اس اقدام کو تقویت ملتی ہے کہ طالبان سے رابطے میں رہا جائے اور کابل کی حکومت کو فاصلے پر رکھا جائے۔

ڈاکٹر وائین بوم کے مطابق، ’’اس سے امریکہ کا یہ مؤقف کمزور پڑ جاتا ہے کہ طالبان کے لیے لازم ہے کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں، جبکہ کابل میں حکومت اب پہلے سے کہیں زیادہ منتشر نظر آتی ہے‘‘۔

طالبان، جو امریکہ کے ساتھ گزشتہ ستمبر سے مذاکرات کر رہے ہیں، اب تک صدر غنی کی انتظامیہ کی سرکاری طور پر امن عمل میں شمولیت پر رضامند نہیں ہوئے۔ امریکہ کے سابق معاون وزیر خارجہ، رچرڈ باؤچر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امن کے کسی خاکے کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان میں تمام فریقین کے درمیان اتفاقِ رائے حاصل کیا جائے، اور ایسا امکان نظر آتا ہے کہ ابتدا میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

رچرڈ باؤچر کہتے ہیں کہ ’’اتفاقِ رائے کی بھی مختلف جہتیں ہیں جن میں پشتونوں کے درمیان یہ اتفاقِ بھی شامل ہے کہ وہ طالبان کو اس معاملے میں کس طرح سمونا چاہتے ہیں؛ اس لئے کہ طالبان ایک مخصوص پشتون حلقے سے بغض رکھتے ہیں۔ اور ان میں سے بہت سے، مقامی جنگجو ہیں جو مستقبل کے بارے میں وسیع تر سوجھ بوجھ نہیں رکھتے‘‘۔

رچرڈ باؤچر کہتے ہیں کہ ’’اعلیٰ سیاسی دھڑوں کے درمیان وسیع تر اتفاقِ رائے سے ہی طالبان اس بات پر مجبور ہو سکتے ہیں کہ کسی متحدہ افغان گروپ سے لین دین کریں‘‘۔ اور، ان کے بقول، ’’افغان حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس اتفاقِ رائے حاصل کرنے کیلئے بہتر کوشش کرے‘‘۔