افغانستان میں موسیقی کے واحد ادارے، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے طلبہ اور اساتذہ اپنے خاندانوں کے ساتھ پرتگال پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں مستقل سکونت دی جا رہی ہے۔
ان اساتذہ اور طلبہ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنا ادارہ دوبارہ قائم کریں گے اور پھر سے سر بکھیریں گے۔
دو سو تہتر افراد پر مشتمل یہ گروپ جس میں انسٹیٹیوٹ کے 150 طلبہ شامل ہیں قطر سے پرتگال پہنچا ہے۔ ان افراد کو اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں پانچ مختلف پروازوں کے ذریعے افغانستان سے نکالا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے، ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے میوزک ادارے کے بانی ڈاکٹر احمد سرمست نے ان افراد کی جان بچانے کے اہم مرحلے کی تکمیل پر اطمینان کا اظہار کیا۔
SEE ALSO: افغانستان میں موسیقی کے قومی ادارے سے وابستہ تمام فن کار ملک چھوڑ گئےڈاکٹر سرمست کا کہنا تھا کہ آج کے بعد یہ موسیقار نہ صرف افغان آرٹسٹوں بلکہ افغانستان میں طالبان اور ان کے ظلم و ستم کے خلاف نمائندگی کریں گے اور عزم و جرات کی مثال بنیں گے۔
ان افراد کے سفر اور آبادکاری کے خرچے کو حکومت، پرائیویٹ اداروں کی کوششوں اور نجی طور پر دیے گئے عطیات سے ممکن بنایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ 20 سال بعد افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد سے ہزاروں کی تعداد میں سیاستدان، کھیلوں اور آرٹ سے منسلک افراد ملک سے فرار پر مجبور ہوئے۔
ایک کروڑ تیس لاکھ آبادی والے ملک پرتگال نے افغانستان کی تازہ صورتحال کے بعد سے 764 افغانوں کو پناہ دی ہے۔ افغانستان کی خواتین کی یوتھ فٹ بال ٹیم کو بھی یہیں مستقل سکونت دی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
موسیقی افغانستان کی ثقافت کا اہم جزو رہی ہے، جبکہ گزشتہ بیس سال میں یہاں پاپ میوزک کی مقبولیت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا مگر طالبان کی جانب سے اسلامی قوانین کی کڑی تشریح اور سزاؤں کے پیش نظر ملک بھر کے آرٹسٹ اپنے مستقبل اور جانوں کے لئے فکرمند رہے۔
ان ہی میں افغانستان نیشنل میوزک انسٹیٹیوٹ سے منسلک افراد بھی شامل تھے۔ موسیقی کے اس ادارے کا قیام 2010 میں عمل میں آیا تھا۔ امریکہ اور یورپ میں ہجوم سے بھرے ہالز میں پرفارمنسز دیتے یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بہت ہی جلد نئے افغانستان کی علامت بن گئے۔
میوزک اسکول کے طلبہ اور اساتذہ تو اب پرتگال میں محفوظ ہیں مگر کابل میں ان کے اسکول کیمپس پر طالبان کا قبضہ ہے، بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیئے گئے ہیں اور دفاتر میں تھوڑ پھوڑ کی گئی ہے۔
گھر چھوٹا، ملک چھوٹا، تعلیم چھٹی؛ مگر ادارے سے وابستہ افراد کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔ ان کا دارالحکومت لسبن میں افغان ثقافتی مرکز کے تحت اپنا اسکول دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ہے، تاکہ سر سیکھنے اور بکھیرنے کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔