رسائی کے لنکس

افغان فن کاروں کی پشاور آمد؛ ’وہاں طالبان سے پریشان تھے، یہاں پولیس سے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’جس دن افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان قابض ہو رہے تھے میں دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مقامی ہوٹل میں موسیقی کی ایک محفل میں گانا گا رہا تھا۔ ہم نے وہ تقریب اسی وقت ختم کی اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔‘‘

یہ جملے پشتو کے معروف گلوکار رفیع انیس کے ہیں جو کہ ​15 اگست 2021 ​کو طالبان کے کابل میں داخل ہونے کی روداد سنا رہے تھے۔

وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے رفیع انیس کا کہنا تھا کہ طالبان نہ موسیقی کو سنتے ہیں اور نہ اس کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے اہلِِ خانہ سے مشورہ کیا اور کابل میں طالبان کی آمد کے دوسرے دن صبح قندھار کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کے سفر کا آغاز کیا۔

رفیع انیس کے مطابق وہ اہلِ خانہ سمیت کابل سے اسلام آباد لگ بھگ پانچ دن تک سفر کرنے کے بعد پہنچے تھے۔ ان کے بقول اس قافلے میں خواتین اور بچوں سمیت 55 افراد شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران سب سے زیادہ طویل اور مشکل مرحلہ سرحدی گزرگاہ اسپن بولدک میں تھا، جہاں پر ہزاروں لوگ پاکستان میں داخل ہونے کے لیے انتظار کر رہے تھے۔ جب کہ کابل سے قندھار تک اور قندھار سے اسپن بولدک تک راستے میں نہ کھانا ملا اور نہ ہی پانی دستیاب تھا۔ بھوک اور پیاس سے بچوں کی حالت بڑی خراب ہو گئی تھی۔

افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد کابل، جلال آباد سمیت دیگر بڑے شہروں سے نقل مکانی کرنے والوں میں گلوکاروں، موسیقاروں اور اداکاروں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

کئی اہم گلوکار اور موسیقار تو طالبان کے کابل میں داخل ہونے سے قبل ہی بیرونِ ملک منتقل ہو گئے تھے۔ وہ فن کار اور موسیقار جو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں رہ گئے تھے بعد میں دیگر ممالک منتقل ہونے کی کوششوں میں لگ گئے۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کی طورخم کی سرحدی گزرگاہ گزشتہ مئی سے دو طرفہ آمد و رفت کے لیے بند ہے۔ اسی وجہ سے زیادہ تر فن کار اسپن بولدک کے راستے پاکستان پہنچے تھے۔

قبل ازیں افغانستان سے لگ بھگ 50 گلوکار، موسیقار، اداکار اور ٹی وی سے وابستہ دیگر افراد پشاور پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پشاور میں فن کاروں کی بہبود کے لیے سرگرم تنظیم ’ہنری ٹولنہ‘ کے صدر راشد احمد خان کے بقول یہ 50 سے زائد افغان فن کار خوست کے شہرِ نو کے راستے پشاور پہنچے تھے۔

افغانستان کے کنگ خان نے اپنا وطن کیوں چھوڑا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:32 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں راشد احمد خان نے بتایا کہ پشاور پہنچنے والے فن کاروں کے اہلِ خانہ کے کئی افراد اب بھی کابل میں ہیں جن کے لیے وہ پریشان بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے پشاور منتقل ہونے والے گلوکار، اداکار اور فن موسیقی سے منسلک دیگر افراد کا تعلق کسی بھی سیاسی یا لسانی تنظیم سے نہیں ہے۔ اس کے باوجود کابل میں داخل ہونے کے بعد طالبان کا پہلا نشانہ گلوکار اور موسیقار ہی تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے پہلا اعلان یا فیصلہ ریڈیو، ٹیلی وژن اور نجی محفلوں میں موسیقی پر پابندی عائد کرنے کا کیا تھا۔ اسی وجہ سے یہ لوگ طالبان کی پابندیوں اور ممکنہ سزاؤں سے بچنے کے لیے نہایت عجلت میں پشاور منتقل ہوئے ہیں۔

قبل ازیں سوویت یونین کی افغانستان سے واپسی کے بعد طالبان کے برسر اقتدار آنے پر موسیقی اور فنونِ لطیفہ سے منسلک افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم امریکہ میں 2001 میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد نومبر 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے پر افغانستان میں سرکاری طور پر موسیقی کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے تھے۔

گزشتہ ماہ کابل میں داخل ہونے سے قبل طالبان نے جولائی میں قندھار پر قبضہ کیا تھا جہاں مقامی پشتو مزاحیہ اداکار نذر محمد عرف خاشہ زوان کو مبینہ طور پر گھر سے حراست میں لیا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کی لاش ان کے اہلِ خانہ کے حوالے کی گئی تھی۔

ایک افغان اداکار نے نام نہ بتانے کی درخواست پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ طالبان کی ڈر سے پشاور آئے ہیں۔ البتہ پشاور منتقل ہونے کے بعد اب پولیس کا رویہ ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس روزانہ پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار سے ملحقہ کباڑی بازار اور ڈبگری بازار میں موسیقاروں اور گلوکاروں کے ڈیروں پر چھاپے مارتی ہے۔ تاہم رفیع انیس نے مقامی لوگوں اور پولیس کا ان کے ساتھ رویہ بہتر قرار دیا۔

رفیع انیس نے بتایا کہ کوئٹہ کے راستے وہ لوگ اسلام آباد پہنچے تھے۔ البتہ اسلام آباد میں زیادہ کرایوں اور مہنگائی کے سبب وہ پشاور منتقل ہوئے۔

افغانستان میں موسیقی کے سر خاموش
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:02 0:00

ہنری ٹولہ کے صدر راشد احمد خان پشاور کی پشتو اکیڈمی سے موسیقی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور پولیس کے اہلکاروں نے قصہ خوانی بازار کے عقب میں کباڑی بازار میں ایک بالا خانے پر چھاپہ مار کر دو افغان باشندوں کو حراست میں لیا تھا۔ بعد میں مقامی لوگوں، سیاسی اور سماجی رہنماؤں کی مداخلت پر ان افراد کو رہا کیا گیا تھا۔

راشد احمد خان کے بقول کابل سے پشاور آنے والے زیادہ تر گلوکاروں اور موسیقاروں کا تعلق نئے نسل سے ہے۔ ان میں ماضی کے معروف گلوکار شاه زوان منور کے دو بیٹے بھی شامل ہیں۔ ان میں رفیع انیس بھی شامل ہیں جنہوں نے گانے تو کم گائے ہیں مگر ان کے یہ تمام گانے دنیا بھر میں مقبول ہوئے ہیں۔

پشاور منتقل ہونے والے زیادہ تر گلوکار اور اداکار شناخت کو خفیہ رکھنے کے لیے ذرائع ابلاغ سے بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دشوار گزار پہاڑوں پر کئی کئی دن کے سفر کے بعد وہ پشاور پہنچے ہیں۔ اب یہاں بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد افغانستان سے نقل مکانی کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ البتہ نقل مکانی کرنے والوں کی پاکستان آمد کے بارے میں کسی قسم کی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی۔

XS
SM
MD
LG