افغانستان کی پارلیمینٹ جس کے لیے آج ووٹنگ ہورہی ہے، یہ پارلیمنٹ اُس بین الاقوامی کانفرنس کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی جس میں طالبان کے بعد کے دور کے نظام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اگرچہ یہ کانفرنس نو برس پہلے جرمنی کے شہر بون میں منعقد ہوئی تھی ، لیکن پارلیمینٹ کے خدو خال کی تشکیل کا کام اب بھی جاری ہے۔
بون میں ہونے والے سمجھوتے کی رو سے افغان پارلیمینٹ نئی افغان جمہوری حکومت کی تین شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ اس کی بقیہ دو شاخیں ہیں۔ لیکن امریکہ کے آرمی وار کالج کے پروفیسرلیری گڈسن کہتے ہیں کہ بیشتر اختیارات اب بھی صدر حامد کرزئی کے پاس ہیں کہ’’میں سمجھتا ہوں کہ ایک ادارے کی حیثیت سے پارلیمینٹ کا اپنا انفرادی کردار نمایاں ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس میں انتظامیہ کے اقدامات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا ہو رہی ہے، لیکن یہ اب بھی نسبتاً کمزور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کے سیاسی نظام پر اب بھی انتظامیہ کا غلبہ ہے‘‘۔
گذشتہ جنوری میں پارلیمنٹ نے اپنا اختیاراستعمال کیا۔ اس نے صدر کرز ئی کی طرف سے17 وزارتی تقرریوں کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔ افغانستان کے لیے یورپی یونین کے سابق خصوصی نمائندے Francesc Vendrell کہتے ہیں کہ صدر کرزئی کو امید ہے کہ اس بار پارلیمینٹ کے جو ارکان منتخب ہوں گے ان کا رویہ زیادہ دوستانہ ہوگا کہ’’ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدر کرزئی دھاندلی کے ذریعے ایسی پارلیمینٹ کے قیام میں کامیاب ہو جائیں گے جوان کی ہاں میں ہاں ملائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایسی پارلیمینٹ چاہتے ہیں جو آج کل کے مقابلے میں ان کی بات ماننے کو زیادہ تیار ہو۔ لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ‘‘۔
یہ کام اس لیے مشکل ہے کیوں کہ افغانستان میں کوئی منظم سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں جو مختلف حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کریں۔ کچھ پارٹیاں ہیں ضرور لیکن وہ کسی ایک امید وار کے ہاتھوں میں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے ارکان کو اپنی جماعت کے نظم و ضبط کی پابندی کرتے ہوئے صدر کی حمایت کرنی پڑے۔
لیری گڈسن کہتے ہیں کہ افغانستان میں سیاسی اتحاد پارٹیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ نسلی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں’’پارلیمینٹ ایسی جگہ ثابت ہوئی ہے جہاں تاجک اور ازبک اور ہزارہ اور دوسرے نسلی گروپ جن کا تعلق کرزئی کے پشتون گروپ سے نہیں ہے ، حکومت کی تجاویز سے اختلاف کر سکتے ہیں اور اس طرح اپنے حامیوں کی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ان کا مقصد کرزئی کے اقدامات کی مخالفت کرنا ہوتا ہے کیوں کہ وہ پشتون ہیں‘‘۔
Francesc Vendrell کہتے ہیں کہ بغاوت اور شورش کے ہنگاموں کے درمیان ، پارلیمینٹ اپنا وجود منوانے کی کوشش کر رہی ہے’’میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمینٹ میں بہت سے نقائص موجود تھے۔ مختلف دھڑوں کے ووٹ خریدنے کے لیے پیسے کا لین دین عام سی بات تھی۔ لیکن یہ بالکل ابتدائی دور کی بات ہے۔ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیئے‘‘۔
Vendrell نے 2001ء کی بون کانفرنس میں شرکت کی تھی اور وہ اب بھی بہت سے سفارتکاروں سے رابطہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بہت سے مغربی ملکوں کی نظر میں پارلیمانی انتخابات اتنے اہم نہیں ہیں’’مغربی ملکوں کی حکومتوں کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ یہ انتخابات منصفانہ ہوتے ہیں یا نہیں۔ انھوں نے افغانستان میں صاف ستھرے انتخابات کے بارے میں سوچنا چھوڑدیا ہے اور چونکہ یہ انتخابات صدارت کے لیے نہیں، بلکہ پارلیمینٹ کے لیے ہو رہے ہیں، اس لیے میرے خیال میں، بہت سے مغربی ملکوں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ یہ انتخابات کس طرح ہوتے ہیں‘‘۔
لیکن آرمی وار کالج کے لیری کہتے ہیں کہ مغربی ملکوں کو انتخابات کے قابلِ اعتبار ہونے کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے’’ یہ بات امریکی حکمت عملی کے لیے انتہائی اہم ہے کیوں کہ اس حکمت عملی کی بنیاد یہی ہے کہ ایک ایسی قانونی اور جائز حکومت تشکیل دی جائے جو حالات کو بہتر بنانا شروع کر دے تا کہ امریکہ نے اگلے سال گرمیوں میں فوجیں واپس بلانے کا عمل شروع کرنے کا جو اعلان کیا ہے، اسکے لیے تیاری کی جا سکے‘‘۔
امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے کرپشن کی بنیاد پر کرزئی حکومت پر تنقید کی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بد عنوانیوں کی وجہ سے صدر کا اعتبار مجروح ہوا ہے۔ 2005ء کے پارلیمانی انتخاب اور گذشتہ سال کے صدارتی انتخاب کے بارے میں ، جس کے ذریعے صدر کرزئی اپنے عہدے کی دوسری مدت کے لیے منتخب ہوئے، بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کے الزامات لگائے گئے تھے جن سے افغانستان کی حکومت کی ساکھ مجروح ہوئی۔
بون میں ہونے والے سمجھوتے کی رو سے افغان پارلیمینٹ نئی افغان جمہوری حکومت کی تین شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ اس کی بقیہ دو شاخیں ہیں۔ لیکن امریکہ کے آرمی وار کالج کے پروفیسرلیری گڈسن کہتے ہیں کہ بیشتر اختیارات اب بھی صدر حامد کرزئی کے پاس ہیں کہ’’میں سمجھتا ہوں کہ ایک ادارے کی حیثیت سے پارلیمینٹ کا اپنا انفرادی کردار نمایاں ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس میں انتظامیہ کے اقدامات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا ہو رہی ہے، لیکن یہ اب بھی نسبتاً کمزور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کے سیاسی نظام پر اب بھی انتظامیہ کا غلبہ ہے‘‘۔