امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال فروری میں طے پانے والے امن معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات اور افغانستان میں پائیدار امن کی توقع کی جا رہی تھی لیکن یہ معاملہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق مندوب ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ افغانستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے امریکی فورسز کی واپسی کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ پھر چاہے بین الافغان مذاکرات میں خاطر خواہ کامیابی نہ بھی ملے، تب بھی یہ عمل جاری رہنے کی توقع ہے۔
پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران ملیحہ لودھی نے کہا کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح افغانستان کو بھی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سامنا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ لیکن اس وقت افغانستان میں دو سیاسی متحارب فریق شراکت اقتدار کے کسی معاملے پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔
ان کے نزدیک بین الافغان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ہے۔ ان کے نزدیک مذاکرات شروع نہ ہونے کی ایک اور وجہ صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان چپقلش ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری طرف افغان حکومت کی طرف سے طالبان کے تمام قیدیوں کو رہا نہ کرنے کی وجہ سے ناصرف بین الافغان مذاکرات کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے بلکہ افغانستان میں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنا تھا جس کے بدلے میں طالبان افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کرنے کے پابند تھے۔ جس کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔ لیکن یہ عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے اورنہ ہی بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔
ادھر امریکہ اور عالمی برداری افغان فریقین اور بالخصوص طالبان پر تشدد روکنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔ لیکن تشدد کے واقعات میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ افغان فورسز اتحادی افواج کی حمایت سے ان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ لیکن امریکہ اور افغان حکومت کا مؤقف ہے کہ ان کی کارروائیاں طالبان کی عسکری کارروائیوں کے ردعمل میں ہیں۔ اگر طالبان اپنے حملے روک دیں تو ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔
اس معاملے پر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ جب تک افغان امن عمل کا مرحلہ مثبت پیش رفت کے ساتھ آگے نہیں بڑھتا، اس وقت تک دونوں فریقین اپنی لین دین کی پوزیشن بہتر کرنے کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
ملیحہ لودھی کے بقول دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ افغان امن عمل جلد شروع ہو جائے اور وہ تین نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب سے قبل اپنی فورسز کی زیادہ سے زیادہ تعداد واپس بلا لیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ کی سفارتی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح طالبان کو اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ وہ بین الافغان مذاکرات سے قبل وہ اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی پر اصرار کرنے کے بجائے فی الحال اپنے دو ہزار قیدیوں کی رہائی کو ہی قبول کر لیں۔ تاکہ بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو جائیں۔
سابق مندوب نے مزید کہا کہ دوسری طرف امریکہ کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ صدر اشرف غنی بھی لچک دکھائیں۔
حال ہی میں امریکی حکام کی پاکستان کے اعلیٰ فوجی حکام سے ہونے والی گفتگو سے متعلق انہوں نے کہا کہ امریکہ کی توقع ہے کہ پاکستان اس مرحلے میں افغان امن عمل کی راہ میں درپیش مشکلات دور کرنے میں تعاون کرے۔
ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل میں فیصلہ کن کردار افغان فریقین اور امریکہ کا ہے۔ پاکستان ایک معاون کا کردار تو ادا کر سکتا ہے لیکن افغان فریقین کو اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنی ہو گی۔
ملیحہ لودھی نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کے لیے جو کچھ کر سکتا تھا، اس نے کیا ہے۔ ان کے بقول اب بھی اسلام آباد اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان تمام فریقین پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ افغان تنازع کے حل کے لیے تشدد کے بجائے سیاسی راہ اختیار کریں۔
ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکہ کی اولین ترجیح یہ ہے کہ افغانستان سے اپنی فورسز کو واپس بلایا جائے۔ ان کے بقول صدر ٹرمپ کی ترجیح یہ ہے کہ افغانستان میں تعینات فوجیوں کی واپسی خوش اسلوبی سے ہو جائے۔