افغانستان میں تعینات امریکہ کی فوج کے ترجمان نے افغان متحارب فریقین پر زور دیا ہے کہ تحمل سے کام لیں اور افغان تنازع کو حل کرنے کے لیے سیاسی راستہ اختیار کریں۔
افغانستان میں تعینات امریکی فوج نے یہ بات افغان طالبان کو لکھے گئے ایک خط میں ایک ایسے وقت میں کی ہے جب افغانستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد میں اضافے کو افغان امن عمل کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد کے نام لکھے گئے خط میں امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے اگر تشدد میں کمی نہیں ہوتی ہے تو پھر اس کا ردِعمل بھی ہوگا۔
سونی لیگٹ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افغان عوام امن چاہتے ہیں۔ دنیا طالبان سے تشدد کو کم کرکے کرونا وائرس سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرنے کا کہہ رہی ہے۔ اب تشدد کو روکنے کا وقت آگیا ہے۔
سونی لیگٹ نے خط میں مزید کہا ہے کہ تمام فریقین کو سیاسی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ افغانیوں کو اب مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہیے اور مل کر افغانستان کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات کرنے چاہیئں۔
افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے ترجمان اور طالبان کے ترجمان کے درمیان ٹوئٹر پر بھی بیانات کا تبادلہ ہوا۔ بیانات کا یہ تبادلہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب رواں برس 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں امن معاہدہ ہونے کے بعد افغانستان میں بین الافغان امن مذاکرات کے ذریعے پائیدار امن کے قیام کی توقعات بڑھ گئی تھیں۔
افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں سست روی کی وجہ سے امن عمل معطل ہو کر رہ گیا ہے۔
امریکی فوج کے ترجمان نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ افغان تنازع کو حل کرنے لیے سیاسی راستہ اختیار کریں۔ جب کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور بین الافغان مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے افغان حکومت اور طالبان میں قیدیوں کی رہائی کے عمل کو تیز ہونا چاہیے۔
کرنل سونی لیگٹ کا خط سامنے آنے سے قبل افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر نے طالبان کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ حملے جاری رکھیں گے تو پھر انہیں جوابی کارروائی کو توقع بھی رکھنی چاہیے۔
اس بیان پر طالبان ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ اور طالبان معاہدے کے تحت طالبان نے غیر ملکی افواج پر حملے روک دیے تھے اور قیدیوں کی تبادلے کے بعد انہوں نے بین الافغان مذاکرات میں شرکت پر اتفاق کیا تھا۔
امریکہ نے بھی طالبان کے خلاف حملے روک دیے ہیں لیکن افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں کی صورت میں ان کی مدد کا عندیہ دیا تھا۔
کرنل سونی لیگٹ نے کہا کہ شہریوں اور امریکی فورسز پر ہونے والے حملے اگرچہ کم ہو گئے ہیں لیکن 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے کے بعد تشدد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول طالبان نے زبانی طور پر بھی تشدد کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے تمام فریقین کی طرف سے تشدد میں 80 فی صد کمی کی بات کی تھی تاکہ امن مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔
امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ کے خط کے جواب میں طالبان ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے کہا کہ مسئلے کا حل دوحہ معاہدے پر عمل درآمد میں ہے۔
کرنل سونی لیگٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ذبیع اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اشتعال انگیز اور بے معنی بیانات سے موجودہ ماحول کو نقصان نہ پہنچائیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔ آپ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔
طالبان کا اصرار ہے کہ امریکہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ افغان حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ امن معاہدے کے تحت تمام پانچ ہزار قیدی جلد رہا ہو جائیں۔ بصورت دیگر افغان امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت افغان حکومت نے اپنے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنے تھے لیکن یہ عمل سست روی کا شکار ہے ۔
افغانی صحافی زمریالئی اباسین نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی اور تشدد میں کمی کرنے کے معاملے پر موقف میں نرمی لائے۔ دوسری طرف طالبان امریکہ پر دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
ان کے بقول امریکہ اور طالبان معاہدے میں افغان عمل کا ایک فریم ورک طے کر دیا گیا ہے اور طالبان کا اصرار ہے کہ اس معاہدے پر عمل ہو۔
زمریالئی اباسین کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے کے تحت طالبان اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی فوری رہائی کا بار بار مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کوئی ایسی بات قبول کرنے پر تیار نہیں ہوں گے جو امریکہ طالبان معاہدے میں شامل نہیں۔ دوسری طرف امریکہ طالبان پر زور دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ تشدد میں کمی کریں اور قیدیوں رہائی سے متعلق بھی اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کریں جب کہ بین الافغان مذاکرات سے پہلے اپنے تمام قیدیوں کی رہائی پر اصرار نہ کریں۔
اگرچہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ افغان امن عمل میں جلد پیش رفت ہو لیکن صحافی زمریالئی اباسین کے بقول کسی بھی امن عمل کی طرح افغان امن عمل کے بارے میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس میں ہموار طریقے سے پیش رفت ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل کی راہ میں مشکلات حائل ہوں گی لیکن انہیں دور کرنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔