افغانستان کے صدر اشرف غنی جمعہ کو دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ رواں سال ستمبر میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔
وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی افغان صدر کے ہمراہ اسلام آباد آئے گا۔
تسنیم اسلم نے کہا کہ صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات سے متعلق تفصیلی مذاکرات ہوں گے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ بات چیت میں دوطرفہ سیاسی روابط، تجارت، اقتصادیات، سرحد پر سکیورٹی کے معاملات، انسداد دہشت گردی کوششوں، توانائی کے شعبے میں تعاون کے علاوہ افغانستان کی تعمیر نو اور عوام کے درمیان روابط پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
تسنیم اسلم نے کہا کہ افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان افغانوں کی زیر قیادت امن اور مصالحت کی کوششوں کی مسلسل حمایت کرتا آیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت سالانہ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر ہے لیکن اس میں اضافے کے بہت مواقع ہیں۔
وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے شعبے اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان روابط میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تسنیم اسلم نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے تین ہزار افغان طالب علموں کے تمام تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے لیے اُنھیں وظائف دیئے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ چھ سو افغان طالب علم رواں سال پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا آغاز کریں گے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تعلیم مکمل کرنے والے 30 ہزار سے زائد افغان طالب علم اپنے ملک واپس جا کر اپنے معاشرے کی ترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔
سرحد کی نگرانی اور دہشت گردوں کی کارروائیوں سے متعلق امور کے بارے میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ لیکن توقع کی جا رہی کہ نئے افغان صدر کے دورے سے دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے اور وہ کابل سے دوطرفہ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔
افغانستان میں پہلی مرتبہ پرامن انتقال اقتدار کے بعد پاکستان کی طرف سے کابل سے روابط میں اضافہ ہوا ہے۔ ستمبر میں صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں پاکستانی صدر ممنون حسین نے شرکت کی تھی جس کے بعد اکتوبر کے وسط میں پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے اُمورخارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کابل کا دورہ کیا۔
رواں ماہ کے اوائل میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کابل میں افغان صدر اور دیگر اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ جنرل راحیل شریف نے افغان فورس کو پاکستانی تربیت گاہوں میں ٹریننگ کی پیش کش بھی کی تھی۔