افغانستان میں صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ انتخابات میں صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سمیت 14 امیدوار سامنے آئے۔
سخت حفاظتی انتظامات کے نتیجے میں، ہفتے کے روز افغانستان کے صدارتی انتخابات نسبتاً پرامن ماحول میں منعقد ہوئے۔ تاہم، متعدد چھوٹے حملے، ووٹروں کی کم تعداد اور ووٹنگ کے نظام کے بارے میں شکایات کے باعث غیر واضح نتائج برآمد ہونے کا امکان ہے، جس سے ملک مزید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
ابتدائی نتائج 17 اکتوبر کو آنے کی توقع ہے، جب کہ حتمی نتائج 7 نومبر کو سامنے آئیں گے۔
اگر کوئی امیدوار 51 فی صد ووٹ لینے میں ناکام رہتا ہے تو دو سرکردہ امیدواروں کے درمیان ووٹنگ کا دوسرا دور ہوگا۔
’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق، انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے طالبان جنگجوؤں نے ملک کے مختلف حصوں میں حملے کیے۔ تاہم سیکورٹی کے سخت انتظامات کے نتیجے میں گذشتہ انتخابات کی نسبت بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی کی کارروائیاں دیکھنے میں نہیں آئیں۔
پولنگ مکمل ہونے کے بعد، ملک کے آزاد انتخابی کمیشن کی سربراہ حوا عالم نورستانی نے بتایا ہے کہ ’’گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں یہ انتخاب منصفانہ اور خوشگوار نوعیت کا تھا‘‘۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد افغانستان میں پُرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
انتخابات میں 90 لاکھ سے زائد افغان شہریوں نے حق رائے دہی استعمال کرنا تھا جب کہ ملک بھر میں سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یوں تو 14 امیدوار میدان میں اترے تاہم اصل مقابلہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہی ہے۔
انتخابات میں صدر کے لیے امیدوار تمام افراد نے اپنا ووٹ دارالحکومت کابل میں کاسٹ کیا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغان الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کے وقت میں دو گھنٹے کا اضافہ کیا گیا۔
الیکشن میں ووٹنگ کا وقت صبح سات بجے سے تین بجے تک مقرر کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں اس میں مزید دو گھنٹے کا اضافہ کیا گیا اور پانچ بجے تک شہریوں نے ووٹ کاسٹ کیے۔
رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کے وقت میں اضافہ اس لیے کیا کیوں کہ کئی علاقوں میں بروقت پولنگ شروع نہیں ہو سکی تھی۔
افغان طالبان نے صدارتی انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئے ووٹرز کو تنبیہ کی تھی کہ وہ پولنگ اسٹیشنز سے دور رہیں۔
طالبان کے حملوں سے بچنے کے لیے 34 صوبوں میں افغان سکیورٹی فورسز کے اضافی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
صدارتی انتخابات کے لیے افغانستان میں پانچ ہزار کے لگ بھگ پولنگ سینٹرز میں 30 ہزار پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔ جہاں ایک لاکھ سے زائد افغان سکیورٹی اہلکار تعینات تھے جب کہ امریکی فوج فضائی نگرانی پر مامور تھی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا تاہم بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ووٹنگ ٹرن آوٹ انتہائی کم نظر آ رہا تھا۔ پولنگ اسٹیشنز اسکولوں، اسپتالوں، مساجد اور سرکاری دفاتر میں قائم کیے گئے تھے۔
پرتشدد واقعات
افغان حکام نے تصدیق کی ہے کہ قندھار میں ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر دھماکہ ہوا۔ جس کے بعد فوری طور پر وہاں امدادی ٹیمیں روانہ کی گئیں۔
قندھار کے گورنر کے ترجمان بہیر احمدی کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے تین افراد کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق دھماکے میں 15 افراد زخمی ہوئے۔
پرتشدد واقعات کے پیش نظر حکام نے طالبان کے زیر اثر علاقوں میں 400 سے زائد پولنگ اسٹیشن بند کر دیے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق طالبان نے کنٹر، پکتیا، غزنی اور پروان صوبوں میں بھی حملوں کے دعوے کیے ہیں تاہم سرکاری سطح پر ان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
بائیو میٹرک سسٹم پر تحفظات
ناقدین انتخابی عمل کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے وضع کردہ بائیو میٹرک نظام خراب ہو گیا تو شفافیت برقرار رکھنے کے لیے کیا متبادل انتظام ہو گا۔
ابتدائی طور پر انتخابی عمل میں 18 امیدوار میدان میں تھے تاہم چار امیدوار دستبردار ہو گئے لیکن اس کے باوجود بیلٹ پیپر پر 18 امیدواروں کے نام درج ہیں۔
افغانستان میں 2014 میں ہونے والے صدارتی انتخابات بھی متنازع ہو گئے تھے۔ جب صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ عائشہ تنظیم کے مطابق صدارتی امیدوار گلبدین حکمت یار نے کابل میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔
اس موقع پر انہوں نے الزام لگایا کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ان نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا اور نہ ہی اس بار جان کیری مدد کو پہنچیں گے۔ گلبدین حکمت یار نے پیش گوئی کہ انتخابات کے بعد افراتفری اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان انتخابات کے بعد افغانستان میں شراکت اقتدار کا فارمولہ طے پایا تھا جس میں اشرف غنی کو صدر جب کہ عبداللہ عبداللہ کو ملک کا چیف ایگزیکٹو بنایا گیا تھا۔
سرحدی راستے بند کرنے کا فیصلہ واپس
وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں جاری صدارتی انتخابات کے دوران سرحدی راستے بند کرنے کا فیصلہ کابل حکومت کی درخواست پر واپس لیتے ہوئے تمام سرحدی گزر گاہیں کھلی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دو روز قبل حکومتِ پاکستان نے طور خم اور چمن کی سرحدی گزر گاہیں بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دفتر خارجہ کے اعلامیہ کے مطابق افغان حکومت کی درخواست پر پاکستان نے افغان شہریوں کو نقل و حرکت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے گزرگاہیں کھلی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ اجازت اس لیے دی گئی ہے تاکہ افغان شہری صدارتی انتخاب کے دوران ووٹ دینے کا حق استعمال کرسکیں۔