افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی افواج کے اچانک انخلا کے بعد تقریباً ساڑھے تین مہینے قبل ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان جنگجوؤں نے پہاڑوں اور میدانوں میں برس ہا برس تک لڑنے کا اپنا کردار تبدیل کر لیا ہے اور اب وہ شہریوں کے تحفظ اور امن و امان قائم رکھنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں محافظوں کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔
اب بہت سے طالبان عسکریت پسند ملک کے مختلف حصوں میں سڑکوں پر قائم چوکیوں میں ڈیوٹی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شہروں اور قصبوں میں مسلح گشت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہرات میں رات کے وقت مختلف مقامات پر ڈیوٹی کرنے والے طالبان عسکریت پسندوں کو فوٹو اتروانے کے لیے کہا تو انہوں نے بڑی خوشی سے نہ صرف اپنی تصویریں بنانے کی اجازت دی بلکہ اس کے لیے پوز بھی بنائے۔
ان طالبان میں 21 سالہ احمد ولی بھی شامل ہیں جنہیں ہرات کے شمالی قصبے قمر کالاغ میں گشت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ وہ ایک اسلامی مدرسے میں پڑھتے ہیں۔
انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کا قرآن پر ایمان ہے اور وہ اپنے ملک میں امریکہ کی موجودگی اور سابق افغان حکومت کے خلاف ہیں، جن کی کرپشن اور بدعنوانی کی کہانیاں عام ہیں اور ان پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جاتی تھی۔
ولی نے بتایا کہ اب وہ اپنی نئی ذمہ داریوں میں بہت مصروف رہتے ہیں اور جس علاقے میں اس کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے، وہ وہاں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ان کا اور ان کے ملک کا مستقبل روشن ہے۔ احمد ولی کا کہنا تھا کہ انہیں 99 فی صد یقین ہے کہ تمام افغان شہریوں کے لیے بہتر دن آنے والے ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی معیشت، جس کا انحصار پہلے ہی غیر ملکی امداد پر تھا، شدید نوعیت کے بحران میں ڈوب چکی ہے۔ بین الاقوامی برادری نے کروڑوں ڈالر کی مالی امداد روک دی ہے، جس پر اس ملک کےتین کروڑ 80 لاکھ آبادی کا انحصار تھا جب کہ بیرون ملک افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد ہو چکے ہیں۔
افغانستان کا بینکاری کا نظام زیادہ تر بیرونی دنیا سے منقطع ہو چکا ہے اور نئے طالبان حکمران عمومی طور پر ملازموں کو تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں، جب کہ ملکی معیشت سے روزگار کے مواقع ختم ہو چکے ہیں۔
چند پیشوں کے سوا، خواتین کے لیے زیادہ تر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور انہیں ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری جانب ہزاروں افراد، جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند بھی شامل ہیں، یا تو ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں یا افغانستان چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے ملک سے ذہین اور مہارت رکھنے والے افراد کی شدید قلت کا خدشہ جنم لے رہا ہے۔