افغان طالبان کے لیڈر ملا اختر منصور کے زخمی ہونے سے متعلق خبروں کے بعد اب اُن کی زندگی کے بارے میں متضاد خبروں کی وجہ سے بے یقینی کی کیفیت مزید بڑھ رہی ہے۔
تاہم طالبان کے ترجمان کی طرف سے مسلسل اس بات کی تردید کی جا رہی ہے کہ سینیئر طالبان رہنماؤں کے ساتھ اختلافات کے بعد فائرنگ کے ایک واقعہ میں ملا منصور زخمی ہو گئے ہیں۔
طالبان ذرائع کے مطابق دھڑوں میں اندرونی اختلافات کے خاتمے کے لیے ہونے والی بات چیت کے دوران تلخی بڑھنے کے بعد فائرنگ سے ملا اختر منصور زخمی ہو گئے، جس کے بعد اُنھیں بظاہر علاج کے لیے ایک نجی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
لیکن یہ کسی کو نہیں معلوم کہ اُنھیں کس اسپتال منتقل کیا گیا تاہم بعض اطلاعات کے مطابق اسپتال میں ملا منصور کی حالت تشویشناک تھی۔
ملا منصور کی قیادت کو تسلیم نا کرنے والے طالبان میں سے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے منگل کو کوئٹہ کے قریب ایک طالبان رہنما کے گھر پر ملاقات کے دوران فائرنگ کی وجہ سے ملا منصور شدید زخمی ہو گئے اور ممکنہ طور پر اُن کا انتقال ہو چکا ہے۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبداللہ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ ملا منصور کوئٹہ کے قریب لڑائی میں زخمی ہو گئے۔ لیکن اس واقعہ کے براہ راست کوئی شواہد نہیں ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران ملا منصور کے زخمی ہونے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’’ہم نے اس بارے میں ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی خبریں دیکھی ہیں لیکن ہم اس واقعہ سے متعلق آگاہ نہیں ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ طالبان کے مرکزی ترجمان نے ملا منصور سے متعلق خبروں کو افغان انٹیلی جنس کا پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ اس طرح کی خبریں پھیلانے کا مقصد طالبان تحریک میں مزید اختلافات بڑھانا ہے۔ ترجمان کے مطابق ملا منصور زندہ اور خیریت سے ہیں۔
تاہم ملا منصور کی صحت اور زندگی سے متعلق اس لیے بھی ابہام موجود ہے کیوں کہ طالبان نے اپنے رہنما ملا عمر کی موت کی خبر کو بھی تقریباً دو سال تک چھپائے رکھا۔ ملا عمر کا انتقال 2013ء میں ہو گیا تھا لیکن اس کی تصدیق رواں سال جولائی میں اُس وقت کی گئی جب ذرائع ابلاغ میں اُن کی موت کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں۔
ملا منصور کی طرف سے تاحال براہ راست کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان رہنما کی سکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کی وجہ سے اُن تک براہ راست رسائی میں کچھ وقت لگ رہا ہے۔
’’ہم اپنے لوگوں کے ذریعے اُن (ملا منصور) تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ تاکہ ان افواہوں کے خاتمے کے لیے طالبان رہنما کی آواز میں میڈیا کو ایک بیان جاری کیا جا سکے۔
اس بے یقینی کے باعث افغانستان میں امن مذاکرات کی بحالی کے امکانات مزید معدوم ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی کوششوں سے رواں سال جولائی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات ہوئے تھے لیکن ملا عمر کے انتقال کی خبروں کے بعد یہ عمل معطل ہو گیا۔
ملا عمر کے بعد جب ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا سربراہ بنایا گیا تو طالبان کے کئی سینیئر رہنماؤں کی طرف سے اُن کی مخالفت کی گئی۔
واضح رہے کہ افغانستان کے صوبہ زابل میں گزشتہ ماہ افغان طالبان کے مختلف دھڑوں میں شدید جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔