افغان طالبان کے ایک مرکزی دھڑے نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ ان کے سربراہ ملا اختر منصور پاکستانی علاقے میں طالبان کی باہمی جھڑپ کے دوران شدید زخمی ہوگئے ہیں
افغانستان کے اول نائب صدر عبدالرشید دوستم کے ترجمان سلطان فیضی نے بتایا کہ یہ جھڑپ منگل کو مبینہ طور پر پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں اس وقت ہوئی جب ملا منصور ایک دوسرے طالبان رہنما ملا عبداللہ سرحدی سے ملنے گئے۔
ان کے بقول ملاقات کے دوران ہونے والی تلخی کے بعد یہاں فائرنگ شروع ہو گئی جس سے ملا منصور شدید زخمی جب کہ چھ طالبان ہلاک ہوگئے۔ منصور کو اسپتال منتقل کیا گیا لیکن ان کی حالت کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔
فیضی نے اپنے اس بیان کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے جب کہ پاکستانی عہدیداروں نے ایسے کسی واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
ملا منصور کے دھڑے کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور ملا منصور افغانستان میں ہی تھے۔
ترجمان نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ " یہ ایک بے بنیاد افواہ ہے، اختر محمد منصور بالکل خیریت سے ہیں اور انھیں کچھ نہیں ہوا۔" انھوں نے اس افواہ سازی کا الزام افغان انٹیلی جنس ایجنسی پر عائد کیا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ "ہم نے ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں دیکھی ہیں، ہمیں اس واقعے کے بارے میں علم نہیں، تاہم ہماری نظر سے یہ گزرا ہے کہ طالبان کے ترجمان نے ایسے کسی واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی تردید کی ہے۔"
رواں سال جولائی میں طالبان کے امیر ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان نے اپنا نیا امیر منتخب کیا تھا لیکن قیادت کے معاملے پر بعد ازاں طالبان کے مختلف دھڑوں میں اختلافات پیدا ہوگئے جو کہ اب شدت اختیار کر چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی ملا رسول نے ملا منصور سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنا علیحدہ گروپ تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔
یہ واقعات ایک ایسے وقت رونما ہو رہے ہیں جب رواں ہفتے ہی افغانستان اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں تعطل کے شکار مصالحتی عمل کو بحال کرنے کے لیے کوششیں دوبارہ شروع کی جانی چاہیئں۔
افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان معطل شدہ بات چیت کی بحالی کو بھی طالبان کی آپسی چپقلش سے خاصا نقصان پہنچنے کا احتمال ہے کیونکہ مبصرین کے بقول اب یہ کون طے کرے گا کہ طالبان کا کونسا دھڑا بات چیت کرے گا اور پھر اس بات چیت کے نتیجے میں سامنے آنے والے فیصلوں پر دیگر طالبان کو آمادہ کرنا بھی ایک مشکل معاملہ ہو گا۔