افغان طالبان نے حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں شریک نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا تک وہ بات چیت کے عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔
ہفتہ کو ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے بیان میں طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ نہ ہی ان کے امیر ملا اختر منصور کو بات چیت میں شامل ہونے کی کوئی ہدایت دی گئی ہے اور نہ ہی قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر نے اس ضمن میں ان سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
امریکہ، پاکستان، افغانستان اور چین کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی گروپ جنگ سے تباہ حال ملک میں مصالحتی عمل کی بحالی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے مذاکرات متوقع طور پر سات مارچ تک پاکستان میں شروع ہو سکتے ہیں۔
لیکن ایسی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کی طرف سے تاحال مذاکرات کے لیے حمتی وفد کو پاکستان بھیجنے پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔
طالبان کی طرف سے بیان میں کہا گیا کہ افغانستان میں "امریکی فوج کابل حکومت کی حمایت میں فضائی کارروائیاں کر رہی ہے۔۔۔جب تک فوجیں یہاں سے چلی نہیں جاتیں، ہمارے قیدیوں کو رہا نہیں کیا جاتا، اس وقت تک مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔"
2014ء میں بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ایک معاہدے کے تحت لگ بھگ 13 ہزار بین الاقوامی فوجی جن میں اکثریت امریکیوں کی ہے، افغان فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کرنے کے لیے یہاں تعینات ہیں۔
گزشتہ سال جولائی میں پاکستان نے فریقین میں پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی کی تھی لیکن بعد ازاں طالبان کے امیر ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے اور پھر طالبان کے آپسی اختلافات کے باعث یہ سلسلہ معطل ہو گیا تھا۔
مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ بات چیت کا عمل جلد شروع کیا جانا ضروری ہے کیونکہ طالبان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں حکومت کے خلاف مسلح مہم میں آنے والی تیزی میں موسم بہار میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر بابر شاہ بھی کہتے ہیں کہ بات چیت کے عمل میں تاخیر نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
"اگر تاخیر اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ بعض ایسے معاملات کو طے کیا جائے جن کا مذاکرات کی میز پر آنے سے پہلے واضح ہونا ضروری ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ چند دنوں یا ہفتوں کی تاخیر ہو جائے لیکن اگر یہ دیر ایسی وجوہات کی بنا پر ہے جو (فریقین کو) میز پر نہیں آنے دی رہیں تو یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔"
ایک روز قبل ہی امریکہ کے صدر براک اوباما نے افغانستان میں مصالحتی عمل سے متعلق افغان صدر اشرف غنی سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے خطے میں تشدد میں کمی اور دیرپا استحکام کو یقینی بنانے کے لیے امن عمل میں اپنی حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر اوباما نے وڈیو لنک کے ذریعے اپنے افغان ہم منصب سے رابطہ کیا اور گفتگو میں افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی شریک ہوئے۔