پاکستان میں افغانستان کے سفیر محمد عمر زخیلوال کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ملا فضل اللہ ایسے افغان علاقے میں روپوش ہے جہاں حکومت کی عملداری نہیں ہے۔
ملا فضل اللہ 2013ء میں ’ٹی ٹی پی‘ کے امیر حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تنظیم کے سربراہ مقرر ہوئے تھے اور پاکستانی حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے سرحد پار افغانستان فرار ہو گیا تھا اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
اسلام آباد کی طرف سے ملا فضل اللہ کی حوالگی کے لیے بار ہار کابل سے کہا گیا ہے لیکن اس ضمن میں کوئی قابل ذکر پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ تاہم افغان قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
جمعرات کو پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے افغان سفیر نے اس بابت مزید تفصیل تو فراہم نہیں کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ہی امن چاہتے ہیں لیکن عدم اعتماد اور غلط فہمیوں کی وجہ سے ان کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سرحد کے دونوں جانب ایسے بعض عناصر ہیں جو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری اور امن عمل کی بحالی نہیں چاہتے لیکن زخیلوال کے بقول افغانستان اس ضمن میں پاکستان سے بہت توقع رکھتا ہے اور "پاکستان کے ایک قدم کے جواب میں افغانستان دس قدم بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔"
پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان میں امن و استحکام کے لیے اپنی حمایت اور تعاون کا یقین دلاتا آیا ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ وہ افغانوں کی زیر قیادت اور ان کی شمولیت سے کسی بھی امن عمل کی بھرپور حمایت کرے گا۔
اسی تناظر میں اس نے گزشتہ سال افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی بھی کی تھی۔ لیکن یہ سلسلہ پہلے دور کے بعد سے تعطل کا شکار ہے اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ چار ملکوں پر مشتمل گروپ کی کوششوں سے یہ عمل جلد بحال ہو جائے گا۔
اس بارے میں افغان سفیر کا بھی کہنا تھا کہ تمام فریقین مذاکرات کا آغاز چاہتے ہیں اور اگر اس وقت بات چیت شروع ہو گئی تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
ڈاکٹر زخیلوال نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو ہی تشدد اور دہشت گردی کا سامنا ہے جس پر باہمی اعتماد کی فضا قائم کرتے ہوئے آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول افغانستان کو جنگ اور تشدد سے بہت نقصان برداشت کرنا پڑا اور اگر یہ بحران اسی طرح جاری رہتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔
افغان سفیر نے لاکھوں پناہ گزینوں کی برسوں تک میزبانی کرنے پر پاکستان کو سراہا لیکن ساتھ ہی ساتھ انھوں نے حکام کی طرف سے افغان مہاجرین کو ہراساں کیے جانے پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
پاکستان میں پندرہ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین قانونی دستاویزات کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن تقریباً اتنی ہی تعداد میں بغیر اندراج کے افغان باشندے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں جن کے خلاف اکثر پولیس کارروائی کرتی رہتی ہے۔