افغانستان میں نیٹو کے ’رزولوٹ سپورٹ مشن‘ کے ترجمان کے مطابق، اپنے سابق لیڈر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد، یوں لگتا ہے کہ افغان طالبان مالی دباؤ کا شکار ہیں، جنھیں مالی امور کا منتظم خیال کیا جاتا تھا۔
برگیڈیر جنرل چارلس کلیولینڈ نے بدھ کے روز کابل میں بتایا کہ ’’ہم نے اس بات کا ثبوت مقامی محصول کی ادائگی میں اضافے کی صورت میں دیکھا ہے، ایسے میں جب وہ اپنے نقصان سے باہر نکلنے کی تگ و دو میں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صورت حال ملا منصور کی ہلاکت کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے‘‘۔
کلیولینڈ کے مطابق، منصور، جنھیں مئی میں پاکستان کے صوبہٴ بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا، ’’مالیاتی امور کے ماہر‘‘ تھے، جن کی مہارت اور منشیات کی تجارت سے تعلق کی بنا پر گروپ کو لڑائی میں مالی مدد حاصل ہو رہی تھی۔
افغانستان میں منشیات کی پھیلی ہوئی تجارت طالبان کی مالی ضروریات کا ایک سودمند ذریعہ رہی ہے۔ ’نیو ٹائمز‘ کی ایک خبر کے مطابق، طالبان کے منشیات کے واسطہ داروں میں، ’’منصور کا قبائلی اسحاق زئی منشیات کے اسمگلروں کے ایک سلسلے سے تعلق تھا‘‘۔
اس عمل میں، اُنھوں نے ذاتی دولت اکٹھی کی، گروپ کے اندر کی چپقلش کو دور کیا اور مالی طور پر طالبان کی مدد کی۔
اس سال پوست کی ریکارڈ کاشت سے فائدہ لینے کی طالبان کی کوششیں ناکارہ سی لگتی ہیں۔
کلیولینڈ نے کہا ہے کہ ’’یہ اچھی فصل تھی اور ہمیں یہی امید تھی کہ طالبان کو پیسے کا بڑا فائدہ ہوگا۔ لیکن جب سے منصور کو ہلاک کیا گیا ہے ہمیں خاص طور پر یہ ثبوت ملے ہیں کہ مقامی آبادی پر ٹیکس بڑھا دی گئی ہے‘‘۔
حامد صبوری ایک سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ ٹیکس بڑھانے کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے چونکہ اُن کے وسائل پر مزید بوجھ پڑ چکا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’گذشتہ چند ماہ کے دوران، لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس لیے، ظاہر ہے کہ زیادہ وسائل درکار ہیں۔ میرے خیال میں، یہی سبب ہے کہ اُنھیں ٹیکس بڑھانے پڑ گئے ہیں، جب کہ وہ آمدن کے دیگر ذرائع تلاش کر رہے ہیں‘‘۔
مالی دباؤ کے باعث، طالبان کی حربی تیاری پر اثر پڑ رہا ہے۔ لیکن، کلیولینڈ نے تسلیم کیا کہ باغی گروپ کسی حد تک اس دباؤ کا مقابلہ افغان سکیورٹی افواج کے خلاف جھڑپیں کرکے پورا کر رہا ہے۔
کلیولینڈ نے مزید کہا کہ ’’ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ کسی چوکی پر چھاپہ مارتے ہیں، جہاں سے وہ اپنے لیے کچھ رسد حاصل کرتے ہیں‘‘۔
سابق جنرل جاوید کوہستانی، کابل میں ایک دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان کے لیے لڑائی مہنگا سودا نہیں ہے۔
کوہستانی نے بتایا کہ اُنھوں نے افغان فوج سے چیزیں چھینی ہین اور اُن علاقوں پر قبضہ جمایا ہے جہاں بارود اتنا مہنگا نہیں تھا۔۔ اُنھیں ’اے کے 47‘ کا ایک کارتوس پانچ سے 10 سینٹ کا پڑتا ہے۔