امریکہ کے ساتھ آئندہ مذاکرات میں پیش رفت متوقع ہے: طالبان

فائل

ذبیح اللہ مجاہد نے وضاحت کی کہ ’ملا برادر‘ نے طالبان مذاکرات کاروں کی ٹیم مقرر کرنے اور امریکی نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی اجازت دینے کا اپنا کام کیا ہے

افغان طالبان نے کہا ہے کہ وہ پیر کے روز قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا پھر سے آغاز کریں گے؛ اور یہ کہ ملاقات ’’مثبت ثابت ہوگی‘‘، حالانکہ حالیہ دِنوں امن عمل کے خلاف رکاوٹوں سے متعلق اور پروپیگنڈہ پر مبنی باتیں سامنے آئی ہیں۔

گزشتہ موسم خزاں کے بعد امریکہ نے باغی گروپ کے ساتھ براہ راست بات چیت کا آغاز کیا، تاکہ افغانستان میں لڑائی کے خاتمے کے لیے سیاسی تصفیے کو فروغ دیا جا سکے۔

گزشتہ ملاقات تقریباً ایک ماہ قبل ہوئی تھی جب اطلاعات کے مطابق دونوں فریق نے ’’اصولی طور پر‘‘ اس بات سے اتفاق کیا کہ وہ امریکی فوج کے انخلا سے متعلق سمجھوتے کی بنیادی ساخت پر رضامند ہوں گے جس میں طالبان یہ ضمانت دیں کہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کے لیے افغان علاقے کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اُس وقت اِس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ دونوں فریق ایک ’ورکنگ گروپ‘ تشکیل دیں گے، تاکہ آئندہ اجلاس سے قبل تفاصیل طے کی جاسکیں اور سفارشات کی تیاری ہوسکے۔

طالبان کے ایک ترجمان نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ ’’انشا اللہ، قطر میں اسلامی امارات (طالبان) اور امریکی نمائندوں کی مذاکراتی ٹیم کے مابین ملاقات ہوگی، جو مثبت ثابت ہوگی‘‘۔

ذبیح اللہ مجاہد نے ذرائع ابلاغ کی اِن رپورٹوں کو مسترد کیا جن میں کہا گیا تھا کہ قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر میں تعینات نئے سربراہ، عبد الغنی آخوند، جنھیں عام طور پر ’ملا برادر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، داخلی نااتفاقیوں کے باعث امریکیوں کے ساتھ پیر کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔

مجاہد نے وضاحت کی کہ ’ملا برادر‘ نے طالبان مذاکرات کاروں کی ٹیم مقرر کرنے اور امریکی نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی اجازت دینے کا اپنا کام کیا ہے۔

اُنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ برادر ’’سیاسی امور پر اسلامی امارات (طالبان) کے معاون ہیں اور امریکی ٹیم میں اُن کے درجے کا نمائندہ موجود نہیں ہے، اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی‘‘ کہ وہ اس ملاقات میں شریک ہوں۔

طالبان کے ساتھ مفاہمتی بات چیت کے افغان نژاد خصوصی ایلچی، زلمے خلیل زاد امریکی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں کے دوران اُنھوں نے بارہا کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان اور افغان حکومت کے ساتھ امن مکالمہ مذاکرات میں پیش رفت کے حصول کے لیے ’’کلیدی شرائط‘‘ میں شامل ہے۔

طالبان افغان حکومت کے ساتھ مکالمے کے کسی عمل میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہیں، جب تک ساری غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نہیں چلی جاتیں۔

امن عمل کے لیے حمایت کے حصول کی خاطر خلیل زاد اِن دنوں افغانستان اور علاقائی ملکوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ جمعے کے روز اُنھوں نے ترکی کا دورہ کیا جہاں اُنھوں نے روسی صدارتی ایلچی برائے افغانستان، ضمیر قبولوف سے ملاقات کی، جس میں امن کی کوششوں سے متعلق گفتگو ہوئی۔

انقرہ میں روسی سفارت خانے نے ’ٹوئٹر‘ پر یہ مختصر اعلان کیا کہ اُس نے ملاقات کا انعقاد کیا، لیکن مزید تفصیل پیش نہیں کی۔ مذاکرات کے ذریعے افغان تنازع کو طے کرنے کے لیے روس نے اپنی سفارتی کوششیں تیز کردی ہیں، جو اس بات پر مصر ہے کہ علاقائی عدم استحکام جاری رہنے کی صورت میں وسطی ایشیائی اتحادیوں اور روسی سلامتی کے مفادات کو خطرہ لاحق رہے گا۔

مزیدبرآں، خلیل زاد نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں اس بات کی تصدیق کی کہ اُنھوں نے روسی ایلچی کے ساتھ بات چیت کی ہے۔

امریکی نمائندہٴ خصوصی نے کہا کہ ’’ابھی ابھی میری روسی ہم منصب، سفیر قبولوف سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے اتفاق کیا ہے کہ امن کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے بین الافغان مکالمہ لازم ہے۔ پیش رفت کے لیے، افغانوں کو چاہیئے کہ وہ ایک متحد، سب کی شراکت والی اور قومی مذاکراتی ٹیم تشکیل دیں جس میں افغان حکومت اور دیگر افغان شامل ہوں‘‘۔

خلیل زاد نے کہا کہ قبولوف کے ساتھ بات چیت میں طالبان مذاکرات کاروں پر عائد سفری پابندیوں کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم امن مذاکرات میں شرکت کے لیے طالبان مذاکرات کاروں پر اقوام متحدہ کی جانب سے لاگو سفری پابندیاں ہٹائے جانے کی راہ تلاش کریں گے‘‘۔

باغی گروپ نے اس ماہ کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ قطر کی بات چیت سے قبل، طالبان مذاکرات کار پاکستان کا سفر کریں گے، جہاں وہ 18 فروری کو خلیل زاد کے ساتھ بات چیت کریں گے؛ اور اسلام آباد میں قیام کے دوران پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ علیحدہ ملاقات کریں گے۔ لیکن، بعدازاں، طالبان نے کہا کہ چونکہ امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے زیادہ تر ارکان پر سفری پابندیاں عائد ہیں، اس بنا پر دورے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

طالبان نے یہ سفری پابندیاں اٹھائے جانے کا مطالبہ کیا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ’’بڑی رکاوٹیں‘‘ ہیں، جو افغان امن عمل کی راہ میں حائل ہیں۔