اس ماہ امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے ساتھ مذاکرات سے قبل طالبان نےمنگل کے روز 14ارکان پر مشتمل ایک مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا ، جو امریکہ کی طویل جنگ کے خاتمےکی کوششوں میں باغیوں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
طالبان کے وفد کی سربراہی شیر محمد عباس ستانکزئی کریں گے، جس میں گوانتانامو بے کے امریکی حراستی مرکز میں قید رہنے والے سابق پانچ افراد شامل ہیں جنھیں امریکی سارجنٹ بووی برگڈہل کے تبادلے کے دوران 2014ء میں رہا کیا گیا، جو 2009ء میں اپنے اڈے سے بھٹک گئے تھے اور اُنھیں طالبان نے پکڑ لیا تھا۔
’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، وفد میں انس حقانی بھی شامل ہیں، جو حقانی نیٹ ورک کے سربراہ کے چھوٹے بھائی ہیں، جو طالبان کا ایک طاقتور دھڑا ہے۔
طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ حقانی، جو اس وقت کابل میں قید ہیں، ’’انھیں رہا کیا جائے، تاکہ مذاکراتی ٹیم اپنا کام شروع کر سکے‘‘۔
مجاہد نے منگل کے روز کہا کہ ’’گرفتار کیے جانے کے وقت وہ ایک طالب علم تھے اور وہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں تھے جس بنا پر اُنھیں گرفتار کیا جاتا‘‘۔
گذشتہ برس جب بات چیت کا آغاز ہوا، طالبان نے حقانی کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اپنی مذاکراتی ٹیم میں اُن کا نام شامل کرکے، حقانی نیٹ ورک شاید یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اُن کی رہائی ضروری ہے، تاکہ وہ بات چیت میں شریک ہو سکیں۔
دسمبر میں، نیٹ ورک کھلے عام امریکی ایلچی کے ساتھ مذاکرات میں ملوث نہیں تھا، ماسوائے اس بات کے کہ اس کے تین نمائندے متحدہ عرب امارات میں اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
ملاقات میں قیدیوں کے معاملے پر غور نہیں ہوا، جن میں انس حقانی اور کابل کی امریکی یونیورسٹی کے دو پروفیسر بھی شامل ہیں۔ کیون کنگ امریکی ہیں جب کہ ٹموتھی ویکز آسٹریلیائی ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اُنھیں حقانی نیٹ ورک نے گرفتار کر رکھا ہے۔
دونوں پروفیسروں کو 2016ء میں کابل سے اغوا کیا گیا تھا۔ ایک برس قبل جاری ہونے والی ایک وڈیو سے پتا چلتا ہے کہ کنگ کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔
اب تک طالبان نے امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت سے ملنے سے انکار کر رکھا ہے، جس کے برعکس اُنھوں نے معروف افغان شخصیات سے، جن میں سابق صدر حامد کرزئی بھی شامل ہیں، اس ماہ کے اوائل میں ماسکو میں ملاقاتیں کی ہیں۔
اپنے آپ کو نظرانداز کیے جانے پر افغان صدر اشرف غنی نے سخت اعتراض اٹھایا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں آیا اُن کی حکومت حقانی کو رہا کرنے پر تیار ہے، جب کہ امن عمل میں اُنھیں کوئی خاص کردار نہیں دیا جائے گا۔
امریکی ایلچی نے پیر کے روز برسلز میں نیٹو اور یورپی یونین کے اہلکاروں سے ملاقات کی۔ ایک ٹوئیٹ میں، اُنھوں نے کہا کہ ’’امن عمل میں حاصل ہونے والی پیش رفت پر اُن کی ٹھوس توثیق سے میری حوصلہ افزائی ہوئی ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ تمام فریق امن سمجھوتا طے کرنا چاہتے ہیں، جو ’’کئی عشروں کی لڑائی کے دوران دی جانے والی قربانیوں کے اعتراف کی غماز ہو‘‘، جب کہ یہ انخلا کا سمجھوتا نہیں ہے۔
یہ خلیل زاد کے تین ہفتے کے مشن کا پہلا پڑاؤ تھا، جس دوران وہ جرمنی، ترکی، قطر، افغانستان اور پاکستان بھی جائیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کی لڑائی پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے اور یہ کہ وہ امریکی فوجوں کو وطن واپس لانے کے خواہاں ہیں۔
اس سے قبل موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، موسم گرما تک امریکہ افغانستان سے اندازاً 14000 فوجی وطن واپس بلالے گا۔ نیٹو اور اتحادی فوج کی 8000 کی نفری بھی افغانستان میں موجود ہے۔