گزشتہ 29 اگست کو افغانستان میں ایک امریکی ڈرون کارروائی کے دوران غلطی سرزد ہونے کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے، ان کے لواحقین نے منگل کے روز برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کارروائی میں ملوث امریکی فوجیوں کے خلاف انضباطی کارروائی کی جانی چاہیے۔
ہیل فائر میزائل کے حملے کا نشانہ زمیرائی احمدی کی کار بنی تھی، جس میں وہ خود اور ان کے 9 اہل خانہ، جن میں سات بچے تھے، ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا جاری تھا۔
منگل کے روز زمیرائی احمدی کے تین بھائیوں نے اپنے بھائی اور خاندان کی ہلاکت پر اپنے صدمے کا اظہار کیا۔ 29 اگست کے اس میزائل حملے کے وقت یہ تین بھائی زمیرائی احمدی سے چند گز کے فاصلے پر موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ آج تک امریکہ کی جانب سے مالی معاوضے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا نہ ہی یہ کہ ان کا افغانستان سے انخلا کب ہو گا۔
SEE ALSO: کابل میں آخری ڈرون حملہ: امریکہ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضہ ادا کرے گا37 سالہ، احمدی ایک طویل عرصے تک انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والی ایک امریکی تنظیم کے ملازم رہ چکے تھے۔ جس ڈرون حملے میں احمدی اور ان کے اہل خانہ ہلاک ہوئے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اگست کے وسط میں طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا تھا۔
اس واقعے کے چند ہی روز قبل کابل کے ہوائی اڈے کے گیٹ کے سامنے داعش کے دہشت گرد گروپ نے ایک خودکش بم حملہ کیا جس میں 13 امریکی فوجی اور 169 افغان شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکی افواج کا خیال تھا کہ جس کار کا وہ تعاقب کر رہے ہیں وہ مشکوک ہے اور حملے کا ارتکاب کر سکتی ہے اور اسی بنا پر انھوں نے اسے نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
واقعے کے بعد احمدی خاندان کے لواحقین نے مطالبہ کیا تھا کہ ذمہ داروں کو سزا دی جائے اور انھیں امریکہ یا کسی دوسرے محفوظ ملک کے جانب نقل مکانی میں مدد کی جائے۔
پیر کے روز پینٹاگان نے بتایا کہ امریکی وزیر دفاع، لائیڈ آسٹن نے ڈرون کی مدد سے کی جانے والی کارروائیوں کی درستگی میں بہتری لانے کے لیے جنرلوں اور اسپیشل آپریشنز کمانڈ کی تجویز کردہ سفارشات کی منظوری دی۔ اس حوالے سے پینٹاگان نےگزشتہ ماہ مروجہ طریقہ کار پر نظرثانی کرنے کے بعد اپنی سفارشات پیش کی تھیں۔
لیکن، پینٹاگان کے ترجمان، جان کربی کے مطابق، ان سفارشات میں جنرلوں کی جانب سے انضباطی کارروائی سے متعلق کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔
کربی نے بتایا کہ امریکہ احمدی خاندان کے لواحقین کو مالی معاوضہ دینے پر تیار ہے اور ممکنہ طور پر انھیں افغانستان سے نکالنے میں مدد فراہم کی جائے گی۔ یہ معلوم کرنے پر کہ اس معاملے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے، کربی نے کہا کہ امریکہ اس کام کو مناسب ترین طریقے سے کرنے کا خواہاں ہے۔
ایمل احمدی نے بتایا ہے کہ ان کے خاندان کے لیے کابل میں مزید رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے، چونکہ عام تاثر یہی ہے کہ امریکہ انھیں معاوضہ دے چکا ہے، اس لیے جرائم پیشہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ ان سے یہ رقم چھین لی جائے۔ ڈرون حملے میں ایمل کی تین سالہ بیٹی 'ملکہ' بھی ہلاک ہوئی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ آئے روز انھیں ٹیلی فون پر دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ایمل اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ ٹیلی فون کرنے والے انھیں یہ دھمکی دیتے ہیں کہ رقم نہ دینے کی صورت میں انھیں ہلاک کر دیا جائے گا۔
ایمل نے مزید کہا کہ ''ہم سے لوگ یہی دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہیں کتنے پیسے ملے ہیں''۔ دوسری جانب، جہاں تک خاندان کو امریکہ منتقل کرنے کے امریکی وعدے کا تعلق کے، ''ہم اس کے منتظر ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں مزید کچھ نہیں بتایا گیا۔ جتنا زیادہ وقت گزر رہا ہے، ہمارے لیے مشکلیں اتنی ہی بڑھتی جا رہی ہیں''۔
رومل احمدی، جن کے اس حملے میں دو سے سات سال تک کی عمر کے تین بچے ہلاک ہوئے تھے، کہا ہے کہ اذیت کا وقت طویل ہوتا جا رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں جن امریکی فوجیوں نے یہ کارروائی کی تھی انھیں سزا ملنی چاہیے۔
بقول ان کے، ''امریکہ ایک سپر پاور ہے، جب کہ ہم بے اختیار ہیں۔ اس لیے ہم نے اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے''۔
ڈرون کی اس کارروائی کے وقت افغان حکومت ختم ہونے کے بعد امریکہ ہزاروں امریکی، افغان اور دیگر اتحادیوں کے ملک سے انخلا کے کام میں مصروف تھا۔
کارروائی کے بعد چند ہفتوں تک اس ثبوت کے باوجود کہ احمدی خاندان کے 10 افراد کو غلطی سے نشانہ بنایا گیا ہے، پینٹاگان کا یہی کہنا تھا کہ داعش کے ممکنہ کارندے کو ہلاک کیا گیا ہے۔
تاہم، ستمبر کے وسط میں امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ، جنرل فرینک مکنزی نے اس کارروائی کو ''افسوس ناک غلطی'' قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کارروائی میں بے گناہ سویلین ہلاک ہوئے ہیں۔