امریکہ کے محکمۂ دفاع کے حکام نے پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اگست میں کابل میں کئے گئے ڈرون حملے میں، جس میں غلطی سے بے گناہ شہری اور بچے ہلاک ہوئے تھے، کسی بھی اہلکار کو سزا نہیں دی گئی۔
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کے مطابق سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے مستقبل میں اس قسم کے حملے کے لیے امریکہ کے سینٹرل کمانڈ اینڈ اسپیشل آپریشن کمانڈ کے جنرلز کی جانب سے دی گئی سفارشات کو منظور کیا ہے۔
یہ سفارشات پینٹاگان کے غیر جانب دار معائنہ کاروں کی جانب سے دی گئی تجاویز پر مبنی ہیں جو گزشتہ ماہ ریلیز کی گئی تھی۔
پینٹاگان کے ترجمان جان کربی کے مطابق ان سفارشات میں حملے میں ملوث اہلکاروں کو سزا دینے کی تجاویز شامل نہیں تھیں۔
ائیر فورس کے لیفٹننٹ جنرل سمیع سعید نے اس تحقیقات کے دوران کہا تھا کہ اس حملے میں رابطے میں تعطل پیدا ہوا تھا اور بمباری کے عمل کے دوران ہدف کی شناخت اور تصدیق میں مسائل پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے 10 شہری، جن میں سات بچے بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ تجاویز جنہیں لائیڈ آسٹن کی حمایت بھی حاصل ہے میں کہا گیا تھا کہ یہ حملہ ایک المناک غلطی تھا اور اس کے دوران کسی اہلکار کی جانب سے بدانتظامی یا غفلت سامنے نہیں آئی ہے۔
لائیڈ آسٹن نے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرنک میکنزی اور اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے سربراہ جنرل رچرڈ کلارک سے کہا تھا کہ وہ لیفٹننٹ جنرل سمیع سعید کی تجاویز کا جازہ لیں اور انہیں ان تجاویز پر مبنی سفارشات فراہم کریں۔ دونوں جنرلوں نے سعید کے نتائج سے اتفاق کیا اور کسی قسم کی سزا کی تجویز نہیں دی۔
جان کربی کے مطابق آسٹن نے ان کے فیصلوں کی حمایت کی ہے جن میں کسی اہلکار کو سزا نہ دینا بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس 29 اگست کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک سفید رنگ کی ٹویوٹا کرونا پر ڈرون حملے کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں زمیری احمدی اور ان کے خاندان کے نو افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سات بچے بھی شامل تھے۔
زمیری احمدی امریکہ کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے ساتھ طویل عرصے سے افغانستان میں کام کر رہے تھے۔
نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل کے بانی اسٹیون کوون نے، جن کے ادارے کے ساتھ زمیری احمدی ایک عرصے سے کام کر رہے تھے، پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ حیران کن ہے۔
ان کے بقول یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری فوج 10 افراد کی قیمتی جانیں لے اور پھر کسی کو بھی احتساب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب پینٹاگان اپنے آپ کو احتساب سے بچاتا ہے تو پھر یہ خطرناک اور غلط فہمی پر مبنی پیغام جاتا ہے کہ اس کے اقدامات کی کوئی توجیح ضرور تھی۔
اس کار اور اس سے متعلق خطرے کے بارے میں انٹیلی جنس ایسے موقع پر سامنے آئی تھی جب داعش خراسان کی جانب سے کابل ائیرپورٹ پر کیے گئے ایک خود کش حملے کے نتیجے میں 13 امریکی فوجی اہلکار اور 169 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔
اس دوران افغان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی اہلکار ہزاروں امریکی، افغان اور دوسرے حلیفوں کو کابل سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
لیفٹننٹ جنرل سمیع سعید نے اپنی تفتیش کے بعد کہا تھا کہ امریکی فوجی اہلکاروں کو قطعی یقین تھا کہ یہ کار ایک خطرہ تھی اور اس کے ایئر پورٹ پہنچنے سے پہلے نشانہ بنانا ضروری تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حملہ کرنے والے اور مددگار اہلکاروں کے مابین بہتر رابطہ کاری کے نتیجے میں اس کار کے متعلق شبہ پیدا ہو سکتا تھا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود حملہ روکنا ممکن نہ تھا۔
امریکہ اس حملے میں مارے جانے والے افراد کے اہل خانہ اور عزیزوں کو مالی امداد دینے اور ممکنہ طور پر انہیں افغانستان سے نکالنے پر کام کر رہا ہے۔ لیکن ابھی تک معاملات طے نہیں ہوئے ہیں۔ اس سوال پر کہ اس عمل میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ خاندان کو بحفاظت افغانستان سے نکالا جا سکے اور اس بارے میں اعلیٰ سطحی گفتگو جاری ہے۔
اس خبر کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔