بعض قانون سازوں نے امریکی فوجوں کی واپسی کے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جب کہ بعض دوسرے قانون سازوں نے کہا کہ 12 سال کی جنگ کے بعد امریکی تنگ آ چکے ہیں۔
واشنگٹن —
امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے 2014 میں امریکہ کی جنگی فوجوں کی مجوزہ واپسی کے بعد افغانستان اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ایک سماعت منعقد کی۔
بعض قانون سازوں نے امریکی فوجوں کی واپسی کے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جب کہ بعض دوسرے قانون سازوں نے کہا کہ 12 سال کی جنگ کے بعد امریکی تنگ آ چکے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بارے میں ایوانِ نمائندگان کی ذیلی کمیٹی کی خاتون چیئر پرسن نے صدر اوباما کے اس سال کے آخر تک افغانستان میں امریکی فوجوں کی کمی کرنے کے منصوبے پر تنقید کی۔
ریپبلیکن ایلینا روز لیتھنن نے کہا کہ فوجوں کی واپسی کا کوئی واضح منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے اور عجلت میں افغانستان چھوڑنے کے خراب نتائج بر آمد ہوں گے۔
‘‘حالات کے پوری طرح مستحکم ہونے سے پہلے افغانستان چھوڑنے سے نہ صرف وہ سب کچھ برباد ہو جائے گا جس کے حصول کے لیے ہم نے اتنی محنت کی ہے بلکہ اس سے ہمارے ان مردوں اور عورتوں کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا جنھوں نے انتہائی جرأت سے خدمات انجام دی ہیں اور افغانستان کے لیے زبردست قربانیاں دی ہیں۔’’
کئی ڈیموکریٹک قانون سازوں نے صدر کا دفاع کیا۔ انھوں نے کہا کہ صدر نے افغانستان میں حقیقت پر مبنی مقاصد کے حصول پر توجہ مرکوز کی ہے۔ بہت سے شعبوں میں ملک کی حالت پہلے سے بہتر ہے۔
ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی ہے اور اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ڈیموکریٹک ڈیلی گیٹ اینی فلیوماویگا جو ویتنام کی جنگ میں لڑ چکے ہیں، کہا کہ 12 سال کی جنگ کے بعد، اب امریکی تنگ آ چکے ہیں۔
‘‘میری رائے میں امریکہ کے لوگوں نے افغانستان میں غیر معین مدت کے لیے رہنے کا وعدہ نہیں کیا تھا نہ ہی ان کا مقصد ملک کی اقتصادی ترقی تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغانستان کو عظیم سلطنتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔’’
انھوں نے کہا کہ اب یہ افغانستان کے لوگوں کا کام ہے کہ وہ اپنے مستقبل کی راہ متعین کریں۔
لیکن اس سماعت میں بیان دینے والے خارجہ پالیسی کے ماہرین نے امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔
رینڈ ‘آر اے این ڈی’ کارپوریشن کے سٹیتھ جونز نے ان مسائل کی طرف توجہ دلائی جو تمام امریکی فوجوں کی عراق سے واپسی کے بعد اس ملک کو پیش آئی ہیں۔
‘‘میں جس بات پر زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے خیال میں افغانستان سے تمام فوجوں کو واپس نکال لینا، جیسا کہ امریکہ نےعراق میں کیا ہے امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ میرے خیال میں 2014 کے بعد امریکہ کو افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنی چاہئیں اور باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں افغانوں کی مدد کرنی چاہیئے۔’’
جونز نے کہا کہ افغانستان میں کافی ترقی ہو چکی ہے اور فوجوں کی مکمل واپسی سے عورتوں کو برابر کا درجہ دیے جانے میں جو حقیقی ترقی ہوئی ہے، اور شیر خوار بچوں کی اموات کی شرح میں جو کمی ہوئی ہے اس کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
نیو امریکہ فاؤنڈیشن کے پیٹر برگن نے بھی حالات کی روشن تصویر پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ 50 لاکھ پناہ گزیں افغانستان واپس جا چکے ہیں، جب کہ عراق میں اسی تناسب سے پناہ گزیں واپس نہیں آئے ہیں ۔ اس کے علاوہ برگن نے پاکستان میں حالات بہتر ہونے کی طرف توجہ دلائی، اگر چہ انھوں نے تسلیم کیا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی موجود ہے۔
‘‘یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومت نے اپنی مدت مکمل کر لی ہے اور پاکستانی اب دوسری سویلین حکومت کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس طرح ایک عشرہ ایسا ہو سکتا ہے جس میں کسی مداخلت کے بغیر سویلین حکومت رہی ہے تو یہ بات علاقے کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے۔’’
کئی قانون سازوں اور ماہرین نے اتفاق کیا کہ افغانستان میں 2014 کے انتخابات اور یہ بات کہ انہیں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات سمجھا جائے، ملک کے لیے اور علاقے کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہوں گے۔
بعض قانون سازوں نے امریکی فوجوں کی واپسی کے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جب کہ بعض دوسرے قانون سازوں نے کہا کہ 12 سال کی جنگ کے بعد امریکی تنگ آ چکے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بارے میں ایوانِ نمائندگان کی ذیلی کمیٹی کی خاتون چیئر پرسن نے صدر اوباما کے اس سال کے آخر تک افغانستان میں امریکی فوجوں کی کمی کرنے کے منصوبے پر تنقید کی۔
ریپبلیکن ایلینا روز لیتھنن نے کہا کہ فوجوں کی واپسی کا کوئی واضح منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے اور عجلت میں افغانستان چھوڑنے کے خراب نتائج بر آمد ہوں گے۔
‘‘حالات کے پوری طرح مستحکم ہونے سے پہلے افغانستان چھوڑنے سے نہ صرف وہ سب کچھ برباد ہو جائے گا جس کے حصول کے لیے ہم نے اتنی محنت کی ہے بلکہ اس سے ہمارے ان مردوں اور عورتوں کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا جنھوں نے انتہائی جرأت سے خدمات انجام دی ہیں اور افغانستان کے لیے زبردست قربانیاں دی ہیں۔’’
کئی ڈیموکریٹک قانون سازوں نے صدر کا دفاع کیا۔ انھوں نے کہا کہ صدر نے افغانستان میں حقیقت پر مبنی مقاصد کے حصول پر توجہ مرکوز کی ہے۔ بہت سے شعبوں میں ملک کی حالت پہلے سے بہتر ہے۔
ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی ہے اور اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ڈیموکریٹک ڈیلی گیٹ اینی فلیوماویگا جو ویتنام کی جنگ میں لڑ چکے ہیں، کہا کہ 12 سال کی جنگ کے بعد، اب امریکی تنگ آ چکے ہیں۔
‘‘میری رائے میں امریکہ کے لوگوں نے افغانستان میں غیر معین مدت کے لیے رہنے کا وعدہ نہیں کیا تھا نہ ہی ان کا مقصد ملک کی اقتصادی ترقی تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغانستان کو عظیم سلطنتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔’’
انھوں نے کہا کہ اب یہ افغانستان کے لوگوں کا کام ہے کہ وہ اپنے مستقبل کی راہ متعین کریں۔
لیکن اس سماعت میں بیان دینے والے خارجہ پالیسی کے ماہرین نے امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔
رینڈ ‘آر اے این ڈی’ کارپوریشن کے سٹیتھ جونز نے ان مسائل کی طرف توجہ دلائی جو تمام امریکی فوجوں کی عراق سے واپسی کے بعد اس ملک کو پیش آئی ہیں۔
‘‘میں جس بات پر زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے خیال میں افغانستان سے تمام فوجوں کو واپس نکال لینا، جیسا کہ امریکہ نےعراق میں کیا ہے امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ میرے خیال میں 2014 کے بعد امریکہ کو افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنی چاہئیں اور باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں افغانوں کی مدد کرنی چاہیئے۔’’
جونز نے کہا کہ افغانستان میں کافی ترقی ہو چکی ہے اور فوجوں کی مکمل واپسی سے عورتوں کو برابر کا درجہ دیے جانے میں جو حقیقی ترقی ہوئی ہے، اور شیر خوار بچوں کی اموات کی شرح میں جو کمی ہوئی ہے اس کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
نیو امریکہ فاؤنڈیشن کے پیٹر برگن نے بھی حالات کی روشن تصویر پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ 50 لاکھ پناہ گزیں افغانستان واپس جا چکے ہیں، جب کہ عراق میں اسی تناسب سے پناہ گزیں واپس نہیں آئے ہیں ۔ اس کے علاوہ برگن نے پاکستان میں حالات بہتر ہونے کی طرف توجہ دلائی، اگر چہ انھوں نے تسلیم کیا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی موجود ہے۔
‘‘یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومت نے اپنی مدت مکمل کر لی ہے اور پاکستانی اب دوسری سویلین حکومت کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس طرح ایک عشرہ ایسا ہو سکتا ہے جس میں کسی مداخلت کے بغیر سویلین حکومت رہی ہے تو یہ بات علاقے کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے۔’’
کئی قانون سازوں اور ماہرین نے اتفاق کیا کہ افغانستان میں 2014 کے انتخابات اور یہ بات کہ انہیں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات سمجھا جائے، ملک کے لیے اور علاقے کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہوں گے۔