اسلام آباد —
امریکہ نے ایک بار پھر افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے پاکستان کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیرپا امن کے قیام کے لیے اسلام آباد کا مکمل تعاون ضروری ہے۔
اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے بدھ کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2014ء افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا سال نہیں بلکہ افغان عوام کے ساتھ پائیدار عزم اور تعلق کے تسلسل کا سال ہے۔
انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ امریکہ، افغانستان میں 1989ء کی غلطی نہیں دہرائے گا بلکہ اس ملک کے لیے آئندہ دس برسوں تک عالمی برادری کے مالی و سیاسی عزم اور سلامتی و ترقیاتی امداد کے لیے کیے جانے والے 20 ارب ڈالر کے وعدوں کو پورا کیا جائے گا۔
افغانستان سے امریکہ کی لڑاکا افواج ایک منصوبے کے تحت آئندہ برس کے اواخر تک وطن واپس چلی جائیں گی اور اس تناظر میں اس ملک اور خصوصاً پاکستان کی طرف سے مختلف تحفظات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔
لیکن امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ تعاون پر مبنی اور دیر پا اشتراک کے عزم پر قائم ہے اور ان کے بقول یہ محض افغانستان میں امریکی عزائم اور ذمہ داریوں سے مشروط نہیں۔
رچرڈ اولسن نے کہا کہ افغانستان میں دیرپا امن کا قیام افغانوں کی قیادت میں ان ہی کے ذریعے ممکن ہے اور امریکہ کا کردار ایسے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد دینا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ صدر براک اوباما اور افغان صدر کرزئی کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ افغانوں کی رہنمائی میں امن اور مصالحت تشدد کے خاتمے کا یقینی راستہ ہے۔
اُدھر پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہے کہ اسلام آباد پرامن افغانستان کے لیے کوشاں ہے اور وہاں سے غیر ملکی افواج کے انخلاء سمیت سلامتی کے دیگر معاملات پر کابل سے رابطے میں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ افغان فورسز کی استعداد کار بڑھانے سمیت قیام امن کے لیے پاکستان ہر ممکن تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان، افغانستان میں مصالحتی عمل میں پیش رفت کے لیے کابل حکومت کی سفارش پر حالیہ مہینوں میں اپنے ہاں قید طالبان قیدیوں رہا بھی کر چکا ہے۔
اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے بدھ کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2014ء افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا سال نہیں بلکہ افغان عوام کے ساتھ پائیدار عزم اور تعلق کے تسلسل کا سال ہے۔
انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ امریکہ، افغانستان میں 1989ء کی غلطی نہیں دہرائے گا بلکہ اس ملک کے لیے آئندہ دس برسوں تک عالمی برادری کے مالی و سیاسی عزم اور سلامتی و ترقیاتی امداد کے لیے کیے جانے والے 20 ارب ڈالر کے وعدوں کو پورا کیا جائے گا۔
افغانستان سے امریکہ کی لڑاکا افواج ایک منصوبے کے تحت آئندہ برس کے اواخر تک وطن واپس چلی جائیں گی اور اس تناظر میں اس ملک اور خصوصاً پاکستان کی طرف سے مختلف تحفظات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔
لیکن امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ تعاون پر مبنی اور دیر پا اشتراک کے عزم پر قائم ہے اور ان کے بقول یہ محض افغانستان میں امریکی عزائم اور ذمہ داریوں سے مشروط نہیں۔
رچرڈ اولسن نے کہا کہ افغانستان میں دیرپا امن کا قیام افغانوں کی قیادت میں ان ہی کے ذریعے ممکن ہے اور امریکہ کا کردار ایسے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد دینا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ صدر براک اوباما اور افغان صدر کرزئی کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ افغانوں کی رہنمائی میں امن اور مصالحت تشدد کے خاتمے کا یقینی راستہ ہے۔
اُدھر پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہے کہ اسلام آباد پرامن افغانستان کے لیے کوشاں ہے اور وہاں سے غیر ملکی افواج کے انخلاء سمیت سلامتی کے دیگر معاملات پر کابل سے رابطے میں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ افغان فورسز کی استعداد کار بڑھانے سمیت قیام امن کے لیے پاکستان ہر ممکن تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان، افغانستان میں مصالحتی عمل میں پیش رفت کے لیے کابل حکومت کی سفارش پر حالیہ مہینوں میں اپنے ہاں قید طالبان قیدیوں رہا بھی کر چکا ہے۔