افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ظاہر کی جارہی ہے کہ اب وہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال خطرے میں پڑ سکتی ہے خاص طور پر خواتین کے حقوق جو انہوں نے 20 برس کی جدوجہد کے بعد حاصل کئے ہیں۔
خبر رساں ادارے، اے ایف پی نے کابل میں خواتین سے بات کی ہے کہ افغان حکومت کے خاتمے اور طالبان کے افغانستان پر غلبے کے بعد وہ کس ذہنی تناؤ سے گزر رہی ہیں۔
عائشہ خرم نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پہلی رات انہوں نے آنکھوں میں کاٹ دی؛ جبکہ پورا دن،" گولیوں کی آوازیں اور لوگوں کے انخلاء کے طیارے خاموشی کو چیرتے رہے۔ ہماری روح اور حوصلہ چور چور ہو گیا ہے۔"
پیر کے روز طالبان جنگجوؤں کے کابل اور خود ان کے علاقے پر بلا روک ٹوک قبضے کے بعد، عائشہ نے ٹوئٹر اور دیگر پیغامات کے ذریعے بتایا کہ پوری قوم کے لئے یہ قیامت کا دن تھا جب پلک جھپکتے میں ہر چیز ڈھیر ہو گئی۔
22سالہ عائشہ خرم اقوامِ متحدہ میں نوجوانوں کی نمائندہ رہ چکی ہیں اور چند ماہ میں کابل یونیورسٹی سے گریجویٹ ہونے والی ہیں۔
مگر اب دیگر افغان طلباء کی طرح انہیں بھی اپنا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ دنیا اور افغان لیڈروں نے ظالمانہ طریقے سے افغان نوجوان نسل کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور ان کے الفاظ میں، "یہ ان تعلیم یافتہ خواتین کے لئے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے جنہوں نے خود اپنے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے ایک روشن مستقبل کا خواب دیکھا تھا۔"
افغانستان پر قبضے کے دوران ہفتوں کے اس عرصے میں طالبان قیادت نے کوشش کی ہے کہ 1996 سے 2001 کے دور کے مقابلے میں اپنا ایک نسبتاً نرم تصور پیش کر سکیں۔
تاہم خواتین ایسی یقین دہانیوں سے مطمئن نظر نہیں آتیں۔
کیا تاریخ خود کو دہرائے گی؟
گزشتہ حکومت میں طالبان کی جانب سےشریعہ قوانین کے سخت گیر نفاذ کے بعد خواتین اور لڑکیوں کو بیشتر تعلیم اور ملازمتوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔
باہر نکلتے ہوئے خواتین کے لئے چہرہ ڈھانپنا لازمی تھا اور کسی مرد کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔
سرِ عام کوڑے، پھانسیاں اور زنا پر سنگسار کرنے کے واقعات شہر کے چوکوں اور سٹیڈیم میں پیش آرہے تھے۔
مگر گذشتہ دو عشروں کے دوران افغان شہروں میں کئی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہیں، جب خواتین یونیورسٹیوں میں جانے لگیں، ملازمت میں اہم عہدوں پر فائز ہوئیں حتیٰ کہ میڈیا، سیاست، محکمہ انصاف اور سیکیوریٹی فورسز میں بھی جگہ حاصل کرنے لگیں۔
تاہم گذشتہ 24گھنٹوں کے دوران کابل میں ممتاز خواتین نے سوشل میڈیا پر طالبان کے دوبارہ کنٹرول کے بعد اپنی زندگی کے طرز اور اپنے ملک کے لئے درد کا اظہار کیا ہے۔
فوزیہ کوفی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن، سیاستدان اور افغان پالیمان کی سابق ڈپٹی سپیکر ہیں۔ وہ کہتی ہیں،"میں اپنا دن شروع کرتی ہوں تو کابل کی خالی سڑکوں اور اس کے لوگوں کے لئے خوف کے ساتھ۔ تاریخ خود کو اتنی جلد دہراتی ہے۔"
مسکہ دستگیر، افغانستان کی امریکن یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں جو طالبان کی سابق حکومت ختم ہونے کے پانچ سال بعد قائم ہوئی تھی۔
وہ کہتی ہیں،"خوف ایک سیاہ پرندے کی طرح آپ کے سینے پر بیٹھ جاتا ہے۔پھر اپنے پر کھولتا ہے اور آپ سانس بھی نہیں لے سکتے۔"
ٹوٹے ہوئے دل
33سالہ فوٹو گرافر ردا اکبر کی ٹوئٹر ٹائم لائن ٹوٹے ہوئے دل کی اموجیز سے بھر گئی۔
ایک پوسٹ تھی،"میرا پیارا افغانستان میری نظروں کے سامنے گر گیا۔"
ایک اور پوسٹ میں ایک شخص کو ایک ہئیر ڈریسر کی دوکان پر لگی مسکراتے پرندوں کی پینٹنگ پر برش پھیرتے دکھایا گیا۔
انہوں نے لکھا، "عورتوں کو عام مقامات سے الگ کر دیا جائے۔"
ردا اکبر خود اپنی تصویروں کے لئے مشہور ہیں جو ان کی آزادی اور ورثے کی ضامن ہیں۔
اب وہ کہتی ہیں،"میں چاہتی ہوں میں کسی کو نظر نہ آؤں اور دنیا سے پوشیدہ ہو جاؤں۔"
طالبان کے قبضے سے دو روز پہلے پناہ گزینوں کے لئے اقوامِ متحدہ کے ادارے نے کہا تھا کہ مئی کے آخر سے ڈھائی لاکھ کے قریب افغان شہری ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں جن میں 80% تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔
ہفتے کے روز اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گتریس نے کہا تھا کہ طالبان کے قبضے والے علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں۔
سہارا کریمی افغانستان کی ممتاز فلمساز ہیں۔ وہ کہتی ہیں وہ ملک چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گی۔
ٹوئٹر پر ایک وڈیو میں انہوں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، "ہوسکتا ہے کچھ لوگ اسے بےوقوفی خیال کریں مگر بے وقوفی ان کی بھی ہے جنہوں نے ہماری سرزمیں کا غلط استعمال کیا۔۔۔بے وقوفی یہ بھی ہے کہ دنیا نے ہم سے منہ موڑ لیا۔"
(اس مضمون میں شامل معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)