افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکہ متحارب افغان دھڑوں کے درمیان سیاسی تصفیے کے لیے پر عزم ہے کیوں کہ کوئی بھی فریق عسکری قوت کے ذریعے یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔
ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پیر کو وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔
افغانستان میں جنم لینے والے امریکی سفیر نے زور دے کر کہا کہ اگر طالبان طاقت کے ساتھ ملک پر قبضہ کر لیتے ہیں تو وہ خود کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کرا سکیں گے اور وہ ایک 'اچھوت' حکومت ہوں گے۔
زلمے خلیل زاد نے یہ گفتگو ایسے وقت میں کی ہے جب امریکہ اگست کے آخر تک افغانستان سے مکمل انخلا کے عمل میں مصروف ہے۔ انہوں نے اس بارے میں بھی اظہارِ خیال کیا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکہ کی افغانستان کے لیے کیا ذمے داری ہو گی اور آیا طالبان امریکہ کے ساتھ طے پانے والے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں؟
وائس آف امریکہ کے لیے ایاز گل نے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے ساتھ 'زوم' پر گفتگو کی۔ جو سوال و جواب کی صورت میں پیش کی جا رہی ہے۔
وی او اے: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ امریکہ کی اخلاقی اور سیاسی ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ افغانستان امریکہ کے فوجی انخلا کے بعد ایک اور خانہ جنگی کی طرف نہیں جائے گا جیسا کہ 1989 میں سوویت فوج کے انخلا کے بعد ہوا تھا؟
خلیل زاد: آپ نے اچھا نکتہ اٹھایا ہے اور یہ بات ہم نے اپنے ذہن میں رکھی ہے کہ جو کچھ نوے کی دہائی میں ہوا، وہ نہیں دہرایا جانا چاہیے۔ افغان حکام کے ساتھ مل کر ہم نے بڑا کام کیا ہے۔ افغان شہریوں نے بڑی قربانیاں دیں۔ سوویت یونین کو ملک سے نکالنے میں ان کو ہماری مدد حاصل رہی۔ اس کے بعد ہم نے افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور ایک بھیانک خانہ جنگی شروع ہو گئی جس نے بڑے چیلنجز پیدا کیے۔
بشمول نائن الیون جیسے واقعے کے۔ لہٰذا ہم وہ غلطی نہیں دہرانا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم افغانستان سے جا سکتے تھے لیکن ہم نے جانے سے پہلے طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ ہم نے طالبان کو اپنی حکمتِ عملی کا حصہ بنایا کہ نہ صرف امریکی فورسز کی افغانستان سے محفوظ واپسی ہو بلکہ اسے امن عمل کے لیے ایک بنیادی پیکج بنایا تاکہ یہ طویل جنگ اختتام کو پہنچے جس کی وجہ سے بہت تکلیفیں آئی ہیں۔
طالبان کے ساتھ ہمارے معاہدے نے افغان دھڑوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ میز پر بیٹھیں۔ یہ ایک ایسے فارمولے پر پہنچنے کے لیے تاریخی پیش رفت تھی جس کو افغانستان کے اندر اور بین الاقوامی کمیونٹی میں وسیع تر حمایت حاصل ہو۔ بدقسمتی سے فریقین نے اس موقع کا اس تیز رفتاری سے فائدہ نہیں اٹھایا ہے جیسا ہم نے چاہا تھا یا جیسا افغانستان کے عوام نے چاہا تھا۔ کیوں کہ لوگ امن کے لیے بے تاب ہیں۔
ہم نے ہمیشہ ایسے راستوں اور ذرائع کی خواہش کی ہے جو مذاکرات کے عمل کو تیز کرنے میں مددگار ہوں۔ کیوں کہ ہم افغانستان کی جنگ کا فوجی حل نہیں دیکھتے۔ اس کا سیاسی تصفیہ ہونا چاہیے۔ ایک دیرپا امن کے لیے سیاسی معاہدہ ہونا چاہیے اور ہم اس کے لیے کوشاں رہیں گے۔
وی او اے: کیا طالبان افغانستان کو عسکری قوت کے ساتھ فتح کرنے کی کوشش اور مطلق اختیار کے لیے تشدد اور ہدف بنا کر قتل کرنے سے دوحہ امن معاہدے کی شرائط اور اس کی روح کی خلاف ورزی نہیں کر رہے؟
زلمے خلیل زاد: معاہدہ طالبان سے یہ تقاضا کرتا ہے اور طالبان کو پابند بناتا ہے کہ وہ افغانستان کے اندر نئی حکومت کے لیے مذاکرات کریں اور جامع جنگ بندی کریں۔ افغانستان کی حکومت کو بھی کچھ چیلنجز یا مشکلات درپیش ہیں کہ وہ ملک میں ایک اسلامی حکومت کے خیال سے اتفاق کریں اور طالبان نے اپنی طاقت استعمال کی ہے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ آیا یہ حکمتِ عملی حکومت کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایک نئی اسلامی حکومت، نئے آئین کے فارمولے سے اتفاق کر لیں۔ لیکن اس مسئلے کا سیاسی حل نکلنا چاہیے۔
حکومت طالبان سے چھٹکارا نہیں پا سکتی، یہ ہمارا تجزیہ ہے اور طالبان افغانستان کو فتح نہیں کر سکتے اور نہ ایسی حکومت بنا سکتے ہیں جسے افغان عوام کی اکثریت اور بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ طالبان سوچتے ہوں کہ اس کا فوجی حل موجود ہے۔
لیکن جب طالبان ہم سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تنازع کا فوجی حل موجود نہیں۔ لیکن اگر کسی کمانڈر یا فوجی رہنماؤں کا خیال ہے کہ اس کا فوجی حل ہے تو وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ اگر وہ ملک پر قبضہ کر لیتے ہیں وہاں مزاحمت ہو گی اور بین الاقوامی سطح پر بھی مخالفت ہو گی۔ انہیں تسلیم نہیں کیا جائے گا، انہیں بین الاقوامی مدد حاصل نہیں ہو گی اور وہ ایک اچھوت ریاست (جس کا حقہ پانی بند ہو) ہوں گے جو وہ خود کہتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں چاہتے۔
فریقین کے لیے دانش مندانہ بات یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ سنجیدگی اور سرعت کے ساتھ بات کریں تاکہ افغانستان کے عوام کی جانب سے سیاسی تصفیے کی امنگوں کی خواہشات کا جواب دیا جا سکے۔
افغانستان کی چالیس پچاس سال کی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ کسی بھی ایک فریق نے اپنی اور اپنا فارمولا دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے تو حالات جنگ اور مداخلت کی طرف لے گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ افغانستان کے رہنماؤں نے اس سے سبق سیکھا ہو گا اور انہیں ایک ایسے فارمولے پر اتفاق کرنا ہو گا جس کی وسیع تر حمایت ہو، جو تسلیم کرتا ہو کہ افغانستان کے شہری آئینی حقوق رکھتے ہیں اور ان حقوق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔
لوگوں کو ہر صورت اس بارے میں اہمیت دی جانی چاہیے کہ وہ اپنے لیے کس طرح کی گورننس چاہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ سبق حاصل کر لیا گیا ہو گا حالاں کہ موجودہ صورتِ حال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ جس سطح کا تشدد ہو رہا ہے، جو مشکلات ہیں اور جس طرح کی تصاویر لشکر گاہ سے آ رہی ہیں، یہ سب بہت دل توڑ دینے والا ہے۔
وی او اے: افغانستان کی حکومت کس حد تک موجودہ صورتِ حال کی ذمہ دار ہے؟ افغانستان کی سیکیورٹی فورسز نے جس طرح میدانِ جنگ میں کارکردگی دکھائی ہے اور طالبان کو تیزی سے علاقوں پر قبضہ کرنے کے قابل بنایا ہے، اس پر آپ کا ردِعمل کیا ہے؟
زلمے خلیل زاد: جیسا کہ آپ جانتے ہیں افغانستان کی فوجیں، تعداد کے اعتبار سے طالبان سے زیادہ ہیں۔ ان کے پاس تین لاکھ فوجی ہیں۔ ان کے پاس فضائیہ ہے اور خصوصی فورسز ہیں۔ ان کے پاس بھاری اسلحہ ہے اور ان کے پاس باقاعدہ سیاسی اور عسکری قیادت موجود ہے۔ باقاعدہ فوجی حکمتِ عملی اور لائحہ عمل موجود ہے۔
اس اعتبار سے حکومتی فورسز کو اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جس طرح کی کارکردگی وہ دکھا رہی ہیں۔ ہم افغان فوجوں کی مدد جاری رکھیں گے اور ہم ان کی مستقبل میں بھی مدد کے لیے پر عزم ہیں۔ صدر آئندہ برس کے لیے بجٹ پر بات کر رہے ہیں، وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے لیے تین اعشاریہ تین ارب ڈالر کی امداد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سو یہ معاملہ قیادت کا ہے، سیاسی اور فوجی قیادت کا کہ وہ افغانستان کو متحد کریں۔ میں جانتا ہوں کہ افغان قیادت جائزہ لے رہی ہے کہ وہ اپنی حکمتِ عملی میں کیا تبدیلیاں لائیں، ان تجربات کی روشنی میں جن کا حوالہ آپ نے بھی دیا ہے۔
وی او اے: کیا آپ افغانستان کے متحارب فریقوں سے بد دلی محسوس کرتے ہیں؟
زلمے خلیل زاد: جی۔ مجھے پیش رفت کے فقدان پر بہت زیادہ تشویش ہے۔ میں جانتا ہوں کہ خلیج بڑھ گئی ہے۔ فریقین میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ لیکن ان کو اپنے گروہی مفادات سے بڑھ ملک کے مفاد کو سب سے پہلے رکھنا چاہیے۔ بغیر کسی سمجھوتے کے وہاں امن نہیں ہو سکتا۔ بنا کچھ دے کچھ لے کے، تمام افغان مرد و خواتین کے حقوق کے احترام کے بنا اور ان کی رائے کو اہمیت دیے بنا امن نہیں ہو سکتا۔