’ہمارا یہ مقدر نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ لڑتے، بگڑتے اور برباد ہوتے رہیں‘۔ یہ بات سینیٹ میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیرمین، سلیم سیف اللہ خان نےاتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے کہی۔
اُنھوں نے قطر میں امریکہ اور طالبان کی ابتدائی گفت و شنید اور وزیر اعظم گیلانی کے دورہٴ دوحہ کو ’ایک اچھی پیش رفت‘ قرار دیا۔
اُن سے اِس متعلق کسی لائحہ عمل تیار کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔ سلیم سیف اللہ کے بقول، افغانستان میں دس سالہ جنگ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ ’کچھ ایسا نظر آرہا ہے کہ جو قوتیں آپس میں لڑ رہی ہیں، اب اُن کے خیالات مل رہےہیں،جسے ہم اچھا سمجھتے ہیں‘۔
سلیم سیف اللہ خان نے کہا کہ پچھلے 32برسوں سےافغانستان کا علاقہ حالتِ جنگ میں ہے، جس کے باعث پاکستان کو بھی بہت نقصان ہورہا ہے، اور اُن کے بقول، ہماری خواہش یہ ہے کہ وہاں کے حالات بہتر ہوں۔ ۔۔ اِس خطے نے کافی جنگ اور تکلیف دیکھ لی ہے۔۔۔ اور سکون اور ترقی کی زندگی بسر کرنے والے دیگر ملکوں کی طرح، ہم بھی چاہیں گے کہ ہمارے حالات بہتر ہوں۔
پاکستان سے نیٹو کی سپلائی لائن کے حوالے سے ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی، جِس میں حکومت اور حزبِ مخالف دونوں کے ارکان شامل ہیں، پاکستان کے مفادات پر غورو خوض کے بعد، اپنی شفارشات دی تھیں کہ پاکستان افغانستان پر بون کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا، نیٹو سپلائیز بند ہوں گی اور حملوں کے لیے ہمارے ہوائی اڈے استعمال نہیں ہوں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ اب نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی سفارشات آنے والی ہیں، جِن پر بحث کے لیے سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کا دوبارہ اجلاس طلب کیا جائے گا اور قومی اتفاقِ رائے سامنےلایا جائے گا۔
سلیم سیف اللہ نے دس برس قبل سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کا ذکر کیا، اور کہا کہ اب حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: