افغانستان کے سینٹرل بینک میں غیرقانونی طور پر رقوم کی منتقلی کو روکنے والے یونٹ نے کام بند کر دیا ہے جس سے ملک کا عالمی مالیاتی نظام سے باہر ہو جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق افغانستان کا یہ یونٹ 2006 سے "فنانشل ٹرانزیکشنز اینڈ رپورٹس انیلیسز" کے نام سے کام کر رہا تھا۔ بینک کی ویب سائٹ کے مطابق اس یونٹ نے رقوم کی منتقلی کی ہزاروں غیرقانونی کوششوں کو ناکام بنایا اور اسمگلرز اور دہشت گردوں کو اس سلسلے میں جرائم کا مرتکب ٹھہرانے میں کردار ادا کیا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے، جو اگست کے وسط سے دارلحکومت پر قابض ہیں، گزشتہ کئی سالوں کی افغان حکومت کے خلاف لڑائی میں منشیات کی تجارت اور دوسرے غیر قانونی ذرائع سے سینکڑوں ملین ڈالرز بنائے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کابل پر حکومت قائم کرنے کے بعد طالبان نےوعدہ کیا ہے کہ اب ملک میں منشیات کاشت نہیں کرنے دی جائیں گی۔
افغان بینک کے اس یونٹ کےملازمین نے رائٹرز کو یہ معلومات نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرفراہم کیں۔
ماہرین کے مطابق سینٹرل بینک کے ایک فعال انٹیلی جنس یونٹ کی عدم موجودگی سے افغانستان کا ۡقرض دینے والے ممالک سے رابطوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
دوسرا یہ کہ افغان حکومت میں شامل طالبان کے خلاف پابندیوں اور اس کے کچھ رہنماؤں کے ناموں کی دہشت گردوں کی فہرست پر موجودگی کے باعث افغانستان کے لیے بین الا اقوامی مالیاتی نطام میں واپسی کا عمل پیچیدہ ہو جائے گا۔
SEE ALSO: طالبان کو پیچیدہ معاشی بحران کا سامنا، عوام کی مشکلات بڑھ سکتی ہیںیاد رہے کہ طالبان کے حکومت سے پہلے بھی عالمی مالیاتی ادارے افغانستان کو اقتصادی لحاظ سے خطرات سے دوچار ایک ملک سمجھتے تھے۔
جہاں تک طالبان حکومت کا تعلق ہے تو اس نے کہا ہے کہ وہ معاشی بحالی کے لیے اقتصادی ماہرین کی خدمات حاصل کرے گی اور یہ کہ وہ اپنے پرانے مخالفین کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔
لیکن پہلی انتظامیہ سے منسلک بہت سے عہدیدار ملک سے باہر جا چکے ہیں اور کچھ ملک کے اندر ہی چھپے ہوئے ہیں۔
سینٹرل بینک کی غیرقانونی مالی کاروائیوں کو روکنے والے یونٹ کے 60 میں سے کچھ ملازم بھی افغانستان سے باہر چلے گئے ہیں یا ملک کے اندر روپوش ہیں۔