افغانستان میں اتحادی افواج کی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں اور طالبان جنگجوؤں کے پرتشدد حملوں میں شہری ہلاکتوں میں رواں برس نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم افغانستان رائٹس مانیٹر ”اے آر ایم“ اور انسانی حقوق کے آزاد کمیشن کے حالیہ تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی بیشتر ہلاکتوں کے ذمہ دار شدت پسند ہیں جب کہ دوسری بڑی وجہ بین الاقوامی افواج اور افغان سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں ہیں۔
اے آر ایم کے عہدیدار اجمل صمدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جنگ کا دائرہ بڑھنے سے مزید شہری علاقے اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں اور شہریوں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ ان کی نقل مکانی میں اضافہ ہوا ہے۔
اجمل صمدی کا کہنا تھا کہ طالبان اپنے مخالفین کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کی غرض سے بڑی تعداد میں دیسی ساختہ بموں کا استعمال کر رہے ہیں اور اس بلا تفریق جنگی چال کے باعث شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔ انھوں نے شدت پسندوں کی جانب سے مصروف شہری مقامات پر خودکش حملوں کو بھی افسوس ناک قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اتحادی افواج کے سابق سربراہ جنرل اسٹینلی میک کرسٹل نے طالبان سرکشی کے خاتمے کے لیے جو حکمت عملی اپنائی تھی اس سے شہری ہلاکتوں میں کمی ہوئی تھی لیکن جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی تعیناتی کے بعد ان کے بقول جنگجوؤں کے ساتھ لڑائی کے طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی ہے جس سے شہریوں کی ہلاکت میں اضافے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ تجزیوں کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ مہینوں میں پرتشدد واقعات میں ایک ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے کم از کم 60 فیصد شہری ہلاکتیں شدت پسندوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہوئی ہیں جب کہ اوسطاً 26 فیصد ہلاکتوں کی ذمہ دار بین الاقوامی اور افغان سکیورٹی فورسز ہیں۔
جون میں اتحادی افواج کو نو برس سے جاری جنگ میں کسی ایک ماہ میں سب سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کر نا پڑا تھا اور اس کے ایک سو سے زائد اہلکار پر تشدد حملوں میں ہلاک ہوئے تھے اور اسی ماہ ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد اے آر ایم کے مطابق 212 تھی جو 2010ء کے پہلے چھ مہینوں میں سب سے زیادہ تھی۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں رواں برس جنگ کے دوران ہونے والی شہری ہلاکتوں پر منگل کے روز ایک رپورٹ کا اجراء متوقع ہے۔