افغانستان اور امریکی فورسز کے خصوصي دستوں کی کارروائیوں سے داعش کی خراسانی گروپ کی جانب سے شمالی افغانستان میں دہشت گرد حملے کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا ہے۔
افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے کہا ہے کہ اسلامک سٹیٹ خراسان بنیادی طور پر پاکستانی پشتونوں پر مشتمل ہے۔ ان میں ازبکستان کی اسلامی موومنٹ کے عناصر بھی شامل ہیں۔ اور اس گروپ میں اندازً 10 فی افراد کا تعلق دنیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے جنگجوؤں کا ہے۔
افغانستان میں امریکی فورسز کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اعلان میں بتایا گیا ہے کہ جنوری کی 28 تاریخ کو افغان فورسز نے اسلامک سٹیٹ خراسان کے سب سے بڑے سہولت کار خطاب اکا کو جوزجان سے پکڑا تھا۔ اس کے بعد دو مہینوں سے بھی کم عرصے میں 16 مارچ کو امریکی فضائی حملے میں اکا کی جگہ مقرر کیے جانے والے داعش کے کمانڈر عمیر اور أبو سمعیہ صوبے سر پل میں مارے گئے۔
اے ایس ایس ایف اور امریکی فورس نے داعش خراسان کو ایک اور جھٹکا افغان صوبے جوزجان کے ایک دور افتادہ علاقے مغل میں دیا اور اس کے جنگجوؤں کو تکنیکی طور پر شکست سے دو چار کر دیا۔
افغان اور امریکی فورسز کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں مسلسل کامیابیوں کی جانب بڑھ رہی ہیں۔
جنرل نکولسن کا کہنا ہے کہ ہر روز ہم اسلامک سٹیٹ خراسان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ وہ جنوبی ننگرہار میں موجود تھے۔ لیکن اگر اب آپ وہاں جائیں تو آپ کو وہاں کئی ایسی وادیاں نظر آئیں گی جو ہم ان کے قبضے سے آزاد کروا چکے ہیں۔ وہاں لوگ اپنے گھروں کو واپس آ رہے ہیں اور بچے سکولوں میں جانا شروع ہو گے ہیں۔
افغانستان میں داعش خراسان کو بڑے پیمانے پر حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور اسے اپنے گروپ میں افغانوں کو بھرتی کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب وہ جنگجوؤں کی بھرتی، سازو سامان اور مالیات کے لیے بیرونی ذرائع پر انحصار کر رہے ہیں اور قبائل کی دشمنی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
جنرل نکولسن کا کہنا تھا کہ ہم اس دہشت گرد گروپ کو محفوظ ٹھکانہ بنانے نہیں دیں گے۔ وہ ہمیں جہاں کہیں بھی ملیں گے، انہیں اپنا ہدف بنائیں گے۔ ہم ملک بھر میں انہیں شکار کرتے رہیں گے۔