افغانستان میں مصالحتی کوششوں اور مشکلات کا جائزہ

افغانستان میں مصالحتی کوششوں اور مشکلات کا جائزہ

افغانستان میں آج کل کثرت سے طالبان کے ساتھ مصالحت کرنے اور انہیں دوبارہ معاشرے میں شامل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن مصالحت کرنا اور معاشرے میں دوبارہ شامل کرنا دو بہت مختلف چیزیں ہیں اور واشنگٹن اور کابل میں انہیں مختلف معنی دیے جا رہے ہیں۔

لندن میں حال ہی میں جو کانفرنس ہوئی اس میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے طالبان کے ساتھ مصالحت کی بات کی۔لیکن افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک نے کہا کہ امریکہ نچلی سطح کے طالبان کو افغان معاشرے میں دوبارہ شامل کرنے کے حق میں ہے لیکن وہ اس کے لیڈروں کے ساتھ مصالحت کو پسند نہیں کرتا۔

سی آئی اے کے سابق افسر Bruce Riedel نے گذشتہ سال اوباما انتظامیہ کی افغان پالیسی کا جائزہ لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں اصطلاحات کے معنی میں جو فر ق ہے اس سے واشنگٹن اور کابل کے مختلف انداز فکر کی عکاسی ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا’’میرے خیال میں اس معاملے میں کچھ کشیدگی موجود ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کسی اہم سیاسی سمجھوتے کے لیے ، یعنی ملا عمر اور افغان حکومت کے درمیان کسی تصفیے کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے عزائم کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ ہیں ۔ یہ لوگ طالبان کے ساتھ کوئی بڑا معاہدہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ہم طالبان کے اندر پائے جانے والے اختلافات سے فائدہ اٹھا کر ان میں سے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں۔‘‘

بہت سے سفارتکار، صحافی اور علمی شخصیتیں مصالحت اور معاشرے میں دوبارہ شامل ہو جانے کی اصطلاحات کو اس طرح استعمال کر رہے ہیں جیسے ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہو۔ سفیر ہالبروک کو اس پر الجھن ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں’’معاشرے میں دوبارہ شامل ہو جانے کے پروگرام کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں انہیں اپنے ہتھیار ڈالنے، القاعدہ سے ترک تعلق کرنے اور افغانستان کی سیاسی زندگی میں شرکت کا موقع مل جائے۔ مصالحت سے مراد یہ ہے کہ طالبان کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور جنگ کے پُر امن خاتمے کی کوشش کی جائے۔ لوگوں کے ذہن میں یہ فرق واضح نہیں ہے۔‘‘

U.S. Institute for Peace کے Alexander Their کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ چاہتی ہے کہ طالبان کی تحریک میں جو عام لڑنے والے لوگ ہیں انہیں اقتصادی فائدے کا لالچ دلا کر تحریک سے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ انھوں نے کہا’’خیال یہ ہے کہ ایسےلوگ اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں، جنھیں میدان جنگ کو خیر باد کہنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے اگر آپ ان کے بنیادی مسائل دور کر دیں، یعنی انھیں روزگار فراہم کردیں، سیکورٹی کا بندوبست کر دیں اور بد عنوانی ختم کردیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی تعداد 70 فیصد ہے یا 30 فیصد۔ ‘‘

معاشرے میں دوبارہ شامل کرنے کی پالیسی کی بنیاد یہ تصور ہے کہ70 فیصد طالبان کے لڑنے کی وجہ کوئی مخصوص نظریہ نہیں ہے بلکہ ان کی اقتصادی مشکلات ہیں یا مقامی مسائل ہیں۔ اس لیے مناسب ترغیبات کے ذریعے انہیں لڑائی ترک کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے ۔

U.S. Army War College کے Larry Goodson کہتے ہیں کہ جنگ کے ابتدائی دور میں یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ نچلی سطح کے طالبان جنگجوؤں کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے ۔ لیکن اب طالبان کی ایک نئی نسل میدان میں آ گئی ہے۔ یہ نوجوان خود کش بمباری کو جنگی چال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یوں اس جنگ کی نوعیت میں بنیادی تبدیلی آ گئی ہے۔ امریکی قیادت کو اب بھی طالبان کی قیادت کے ساتھ مصالحت کی بات چیت کے مقابلے میں نچلی سطح کے طالبان کو معاشرے میں ضم کرنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ اس پالیسی کی بنیاد افغان معاشرے اور علاقائی سیاسی اور فوجی امور کے بارے میں بعض مفروضے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ پوری طرح درست نہ ہوں۔ Goodson کہتے ہیں کہ اب صورت حال اتنی تبدیل ہو چکی ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں مصالحت کے بغیر طالبان کو معاشرے میں شامل کرنے کی بات چیت موئثر نہیں ہو سکتی۔

صدر کرزئی کی طرف سے طالبان کی قیادت کے ساتھ مصالحت کی اپیل کہ وجہ یہ احساس ہے کہ ایک نہ ایک دن امریکہ اور اس کے اتحادی ملک افغانستان چھوڑ کر چلے جائیں گے لیکن طالبان پھر بھی موجود ہوں گے۔

اگرچہ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے قیادت کے ساتھ بات چیت کی حمایت نہیں کرتا لیکن اقوامِ متحدہ اس کا حامی ہے ۔ اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والے خصوصی نمائندے Kal Eide حال ہی میں بعض طالبان لیڈروں سے ملے تھے اگرچہ اس ملاقات کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں اور طالبان نے کہا ہے کہ ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ نے حال ہی میں چار سابق طالبان عہدے داروں پر سے اپنی لگائی ہوئی پابندیاں ختم کردیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس اقدام سے کابل کی مصالحت کی کوششوں کو تقویت ملی ہے۔