افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا ایک سال مکمل ہونے پرایسے تین افغان امریکیوں کو مستقل کو رضاکار گروپ کی مدد سے ایک ریسکیو آپریشن کے ذریعے امریکہ بحفاظت پہنچا دیا گیا ہے جو امریکہ کی مستقل سکونت رکھتے ہیں۔
امریکہ پہنچنے والے ان افراد میں 83 سالہ رحیمہ سادات، 72 سالہ نور محمد عطائی، اور ان کی 59 سالہ اہلیہ انیسہ عطائی شامل ہیں۔ یہ تین فغان امریکی باشندے منگل کے روز نیویارک ہوائی اڈے پہنچے۔ یہ افراد گذشتہ برس اپنے خاندان والوں سے ملنے افغانستان گئے تھے، لیکن کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ تینوں وہاں پھنس کر رہ گئے۔
رحیمہ سادات گذشتہ سال مارچ میں افغانستان اکیلی گئی تھیں۔
SEE ALSO: طالبان کے ساتھ ترغیبات کی پالیسی کارگر ہوگی، یا تعزیرات کی؟وہ کہتی ہیں کہ طالبان کی طرف سے خواتین پر باہر اکیلے نکلنے پر پابندی سے وہ خوفزدہ تھیں، ایسے میں وہ اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ کابل کے قریب ایک سال تک چھپی رہیں۔
امریکہ واپس لائے جانے والوں میں انیسہ اور نور محمد عطائی کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے کنٹرول والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں پکڑے جانے کے خوف سے کئی موقعوں پر اپنا گھر چھوڑنے سے خوفزدہ تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر طالبان کو معلوم ہو جاتا کہ ہم امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہیں تو جانے ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔
اس ریسکیو آپریشن کی قیادت امریکہ میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم پروجیکٹ ڈائنامو نے کی ہے۔ اس تنظیم کی ٹیم کے ارکان ان تینوں کو افغانستان سے نکالنے کے لئے بذاتِ خود وہاں موجود تھے۔
اس تنظیم کے شریک بانی برائن سٹرن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس گروپ کے نکالنے کے لیے درست وقت کا انتظار کر رہے تھے۔
’’ہمیں کچھ ہفتے پہلے ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ وہاں پھنسے ہوئے ہیں، جس کے فوراً بعد ہم نے انہیں نکالنے کے لئے کام شروع کیا۔ لیکن ہم صحیح وقت کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘
برائن سٹرن کہتے ہیں کہ ’’طالبان کے بعد وہاں صورت حال خراب ہے، اگر اپ افغان ہیں، اور وہ آپ کی کسی امریکی کے ساتھ تصویر ہے اور انہیں پتہ چل جائے تو وہ آپ کو یا تو حراست میں لے لیتے ہیں یا اذیت دیتے ہیں یا مار ڈالتے ہیں، وہاں صورت حال ہر ایک کے لئے خطرناک ہے۔ ‘‘
پروجیکٹ ڈائنامو روس کے زیر قبضہ یوکرین کے ساتھ ساتھ طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کے انتہائی متنازع اور جنگ زدہ علاقوں میں شہریوں کے انخلاء کو یقینی بنا رہا ہے۔ یہ ایسے شورش زدہ علاقے ہیں جہاں امریکی خطرے میں ہیں اور وہاں امریکی حکومت کا اثر و رسوخ موجود نہیں ہے اور نہ ہی سفارت خانہ کام کر رہا ہے۔
SEE ALSO: طالبان عہدیدار نے ریپ کیا، زبردستی شادی کی، ’زیرحراست‘خاتون کی دادرسی کی اپیلافغان امریکی مسعودہ نورزاد گذشتہ برس افغانستان میں اپنے خاندان والوں سے ملنے گئی تھیں، جب اس رضاکار گروپ نے انہیں بچایا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مسعودہ نورزاد کہتی ہیں:
"ایک سال پہلے میں افغانستان میں اپنے خاندان سے ملنے گئی تھی، اگست میں طالبان آ گئے، لوگ وہاں سے نکلنے کی کوشش میں ائیرپورٹ پہنچے، میں بھی گئی، میری گود میں میری ڈیڑھ سال کی بچی تھی۔ طویل انتطار کے بعد وہاں سے نکلنے میں ہم کامیاب ہوئے۔‘‘
پروجیکٹ ڈائنامو نے اب تک افغانستان میں 100 سے زیادہ ریسکیو آپریشنز کیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں امریکی شہری، مستقل رہائشی اور اتحادی اس ملک میں پھنس کر رہ گئے تھے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، فوجیوں کے انخلاء کے بعد سے، امریکہ نے اب تک 94 ہزار افغان شہریوں، امریکی شہریوں اور قانونی طور پر مستقل رہائشیوں کا خیر مقدم کیا ہے۔
انیسہ اور نور محمد عطائی کے ایک بیٹے نے نیٹو اور امریکی فوج کے لیے ترجمان کے طور پر کام کیا ہے، جب کہ ان کے دوسرے بیٹے نے امریکی فوج کے لیے بطور کنٹریکٹر کام کیا ہے۔ اس وقت دونوں امریکی خصوصی امیگرنٹ ویزا کے درخواست دہندگان میں شامل ہیں اور منظوری کے منتظر ہیں۔