نیٹو کے ایک ترجمان جمی کمننگز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہلاک کیے گئے حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر کانام دلاور تھا اور پاکستانی سرحد سے ملحق افغان صوبہ خوست میں منگل کو اس کی پناہ گاہ پر کی گئی ایک فضائی کارروائی میں دو دیگر جنگجو بھی مارے گئے۔
ترجمان کے بقول دلاورحقانی نیٹ ورک کے سینئر کمانڈر حاجی مالی خان کے ماتحت کام کرتا تھا جسے ایک ہفتہ قبل نیٹو افواج نے افغان فوجیوں کے ساتھ کیے گئے ایک مشترکہ آپریشن میں پکتیا صوبے سے گرفتار کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ دلاور کی سرگرمیوں کا مرکز پاک افغان سرحد کے ساتھ خوست اور پکتیا صوبے تھے جہاں وہ افغان فوجیوں اور اہم تنصیبات پر متعدد حملوں کے علاوہ جنگجوؤں کو اسلحہ کی فراہمی میں بھی معاونت کیا کرتا تھا۔
نیٹو کے مطابق دلاور القاعدہ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے ساتھ بھی منسلک تھا جب کہ غیر ملکی جنگجوؤں کو نقل وحرکت میں مدد فراہم کرنے میں بھی اس کا اہم کردار تھا۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج نے دلاور کی ہلاکت کو حقانی نیٹ ورک کے لیے ایک اور قابل ذکر نقصان قرار دیا ہے۔
نیٹو کی طرف سے جاری کیے گئے ایک باضابطہ بیان کے مطابق مقامی اور غیر ملکی افواج اس سال اب تک مشرقی افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے 530 سے زائد آپریشنز کر چکی ہیں جن میں اس تنظیم کے 20 رہنماؤں کو ہلاک اور اس سے منسلک تقریباً 1,400 مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
امریکی حکام حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں غیر ملکی افواج کے خلاف حملوں میں ملوث جنگجو تنظیموں میں خطرناک ترین قرار دیتے ہیں اور ان کا الزام ہے کہ ہمسایہ ملک پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس عسکری تنظیم کی مدد کررہی ہے۔
لیکن پاکستان کی سیاسی و عسکری قائدین ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرچکے ہیں اور ان کے بقول یہ بیان بازی پاکستانی فوج کی انسداد دہشت گردی کی جنگ میں قربانیوں کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے۔