میڈیکل آکسیجن کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج میں انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ چونکہ افغانستان میں ڈیزل کی کمی ہے اس لیے آکسیجن کے سیلنڈر نہیں بھر جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی، کئی درجن ضروری ادویات دستیاب نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ طبی عملے کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملیں، لیکن وہ پھر بھی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ تاہم اپنی اور اپنے گھر کی روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے لیے عملے کو اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارنے پڑتے ہیں۔
وبائی امراض کے علاج سے وابستہ 'افغان-جاپان اسپتال' واحد شفاخانہ ہے جہاں کووڈ 19 کے مریضوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ دارالحکومت کابل کا یہی ایک اسپتال 40 لاکھ سے زائد آبادی کی طبی ضروریات پوری کرتا ہے۔
اگرچہ وبا پھیلتی جا رہی ہے لیکن، بظاہر پچھلے چند ماہ سے افغانستان میں کرونا وائرس کی صورت حال اب قدرے بہتر ہے۔ دوسری جانب اب یہ اسپتال خود 'لائیف سپورٹ' کی حالت میں ہے۔
افغانستان میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بحرانی صورت حال کا سامنا ہے، جو کسی بھی وقت مکمل طور پر ٹھپ ہو سکتا ہے۔ اسے تب ہی بحال کیا جا سکتا ہے جب امدادی تنظیمیں آگے بڑھیں اور اس کی مدد کریں۔
اسپتال کے انتظامی سربراہ، ڈاکٹر احمد فتاح حبیب یار نے بتایا ہے کہ ''ہمیں کئی مسائل درپیش ہیں،'' عملے کو تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں، ادویات اور طبی آلات کی قلت ہے، جب کہ مریضوں کو کھانا تک دستیاب نہیں ہے۔
SEE ALSO: طالبان حکومت کے وزیرِ اعظم کا قوم سے خطاب، 'افغان عوام کو صبر نہیں ریلیف چاہیے'انھوں نے کہا کہ عملے کے کچھ افراد کی مالی مشکلات اس قدر شدید ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے لیے انھیں اپنے گھر کا سامان تک پیچنا پڑ رہا ہے۔
ان کے بقول، آکسیجن کی عدم دستیابی بہت بڑا مسئلہ ہے چونکہ ہم جنریٹر نہیں چلا سکتے۔ ڈیزل خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ جس کے نتیجے میں کئی ماہ سے اسپتال کا پیداواری پلانٹ بند پڑا ہے۔ اس کے برعکس، ہمیں کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال کے لیے مقامی سپلائر سے آکسیجن سیلنڈر خریدنے پڑتے ہیں۔
امکرون ویریئنٹ نمودار ہونے کے بعد اب معالجوں کو خدشہ لاحق ہے کہ یہ متعدی بیماری کنٹرول سے باہر ہو کر تیزی سے پھیل سکتی ہے۔
38 سالہ ڈاکٹر شیرین آغا اسی اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بیرونی مدد کے بغیر ہم اس قابل نہیں ہو سکتے کہ امکرون ویریئنٹ کا مقابلہ کر سکیں۔ ورنہ کوئی سانحہ پیش آ سکتا ہے۔ اسپتال میں 'گلو' (دستانے) جیسی بنیادی طبی رسد موجود نہیں، جب کہ اس کی دو ایمبولنس گاڑیاں ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں ہو رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسپتال کو چلانے کے لیے گزشتہ حکومت نے نیدرلینڈز میں قائم ایک امدادی گروپ، 'ہیلتھ نیٹ ٹی پی او ' کے ساتھ معاہدہ طے کیا تھا۔ اس کانٹریکٹ کی میعاد نومبر میں ختم ہو چکی ہے۔ عالمی بینک کے زیر انتظام رقوم سے مدد کی جا رہی تھی۔ لیکن، طالبان حکومت کے آنے کے بعد زیادہ تر بین الاقوامی برادری نے ادائیگیاں روک دی ہیں۔
ہیلتھ نیٹ پروگرام کے منیجر، وائلم روسنگ نے کہا ہے کہ رقوم حاصل کرنے کے لیے تنظیم کی جانب سے مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن، زیادہ تر عطیہ دہندگان اب امداد دینے سے گریزاں ہیں۔ اس کی جانب سے سخت شرائط لگائی گئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف محدود پیمانے پر مدد فراہم کر رہی ہیں، لیکن اس میں کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے درکار مدد شامل نہیں ہے۔
امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے وقت جاری افراتفری کی صورت حال کے دوران اگست کے وسط میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا۔ اس کے بعد بین الاقوامی برادری نے تمام امداد روک دی اور بیرون ملک افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے۔ ملک کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر تھا، جس کے رکنے کی وجہ سے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔
طالبان حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ بین الاقوامی برادری عائد کردہ پابندیاں ہٹا دے اور بیرونِ ملک افغان اثاثے جاری کیے جائیں تاکہ سرکاری ملازمین، جن میں ڈاکٹر اور اساتذہ شامل ہیں، انھیں تنخواہیں دی جا سکیں۔
اقوام متحدہ نے انتباہ جاری کیا ہے کہ بھوک کا جاری بحران سنگین صورت اختیار کرے گا، کیونکہ افغانستان کے تین کروڑ 80 لاکھ افراد، یعنی 22 فی صد آبادی، قحط سالی کی شکار ہے؛ جب کہ مزید 36 فی صد کو غذائی اشیا کی سخت قلت درپیش ہے۔
[اس خبر کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے حاصل کیا گیا ہے]