رسائی کے لنکس

طالبان وزیرِ تعلیم کا دورۂ اسلام آباد: 'افغان طلبہ کے وظائف بڑھا کر پاکستان اپنی ساکھ بہتر کرنا چاہتا ہے'


پاکستان نے کہا ہے کہ اسلام آباد افغانستان کے تعلیمی شعبے کی ترقی کے لیے ہر ممکن امداد فراہم کرتا رہے گا۔

جمعرات کو افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ تعلیم عبدالباقی حقانی نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک نے افغانستان میں تعلیمی شعبے کو ترقی دینے پر اتفاق کیا۔

صدر علوی نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی یونیورسٹیز میں آن لائن ذرائع سے تعلیم کے حصول کے لیے تیکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔

پاکستانی صدر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور پاکستان عالمی برادری پر زور دے رہا ہے کہ افغانستان کی مدد کی جائے۔

'مزید افغان طلبہ کو وظائف دیے جائیں گے'

اس سے قبل طالبان حکومت کے وزیرِ تعلیم عبد الباقی حقانی کی قیادت میں پانچ رکنی افغان وفد نے بدھ کو پاکستان کے وزیرِ تعلیم شفقت محمود سے بھی ملاقات کی تھی۔

پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس موقع پر شفقت محمود نے طالبان حکومت کے وفد کو بتایا کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں افغان طلبہ کے وظائف کی تعداد بڑھا کر 4500 کر دی گئی ہے۔

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ افغانستان میں نرسنگ کے شعبے کی ترقی کے لیے پاکستان 100 اسکالر شپس دے گا۔

افغان تجزیہ کار نصرت للہ حق پال کا کہنا ہے کہ افغانستان کے تعلیمی شعبہ کو اس وقت مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تعاون کے باوجود تعلیم سمیت افغانستان میں زندگی کا ہر شعبہ زبوں حالی سے دوچار ہے جس کی بحالی کے لیے عالمی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حق پال نے کہا کہ افغانستان میں بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان، زیادہ تعداد میں افغان طلبہ کو وظائف دے کر مثبت تاثر اُجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اُن کے بقول ماضی کی افغان حکومت کے دوران بھارت یہ کام کرتا تھا جب مختلف بھارتی یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں نے افغان طلبہ کو اسکالر شپس دیے۔

لیکن حق پال کا کہنا ہے کہ طالبان کی قیادت اور ان کے وزیرِ تعلیم کو افغانستان کے معروضی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ملک کو درپیش تعلیمی شعبے کے مسائل کا حل خود تلاش کرنا چاہیے۔

اگرچہ عالمی برادری طالبان حکومت پر زور دیتی آ رہی ہے کہ وہ تمام افغان شہریوں کے لیے تعلیم تک بلاتفریق رسائی کو یقینی بنائیں لیکن دوسری جانب حق پال کا کہنا ہے کہ افغانستان کی براہ راست امداد معطل ہے اس وجہ سے تعلیم کے سلسلے کو مؤثر انداز میں جاری رکھنے کے لیے افغانستان کو فنڈز کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

نصرت حق پال کہتے ہیں کہ طالبان حکومت کی ذمے داری ہے کے وہ تعلیم کے حصول میں حائل مشکلات کو دور کریں لیکن حق پال کے بقول بدقستمی سے اس طرف توجہ کم ہے۔

دوسری جانب بین الاقوامی برادری بھی اس صورتِ حال کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ بین الاقوامی امدادی تنظمیوں کے ذریعے تعلیم کے شعبے کے لیے فنڈز فراہم کرنا آسان نہیں ہے۔ شاید طالبان اس کی اجازت نہ دیں۔

یادر ہے کہ افغانستان میں 15 اگست کو طالبان کی جانب سے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد لڑکوں کی تعلیم کا سلسلہ بحال ہو چکا ہے لیکن خواتین کی تعلیمی سرگرمیوں کا عمل اب بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکا۔

اس وجہ سے طالبان حکومت کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے کہ وہ لڑکیوں اور خواتین کا تعلیمی سلسلہ پوری طرح بحال کریں۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں تعلیمی سرگرمیوں کو بتدریج بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن فنڈز کی کمی کے باعث طالبان حکومت کو مسائل کا سامنا ہے۔

XS
SM
MD
LG