اقوامِ متحدہ کے اداروں نے پیر کے روز خبردار کیا کہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کی ضروریات اس حد تک بڑھ گئی ہیں جس کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے اور تنازع سے متاثرہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی، 22.8 ملین افراد، کو نومبر سے"شدید غذائی عدم تحفظ" کا سامنا ہوگا۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن،اور ورلڈ فوڈ پروگرم نے ایک مشترکہ تحقیقی جائزے میں کہا ہے کہ خشک سالی، تنازعات اور اقتصادی انحطاط کے مشترکہ اثرات نے زندگیوں، معاش اور افغانیوں کی خوراک تک رسائی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ "خطرے میں مبتلا افراد میں سے32 لاکھ پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ سال کے اختتام تک غذائیت کی شدید قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی یہ تازہ ترین رپورٹ ایسے میں سامنے آئی ہے جب عنقریب سخت موسم سرما کے دوران افغانستان کے ان علاقوں کا باقی دنیا سے رابطہ منقطع ہو جائے گا جہاں سردیوں کے منجمد مہینوں میں زندہ رہنے کے لئے لوگ انسانی ہمدردی کی امداد پر شدت سے انحصار کرتے ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام، ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ،"افغانستان کا بحران اس وقت اگر دنیا کا بد ترین بحران نہیں تو دنیا کے بد ترین بحرانوں میں ضرور شامل ہے، اور وہاں خوراک کی شدید قلت ہے۔"
بیسلی نے کہا کہ، "اگر ہم افغانستان میں جان بچانے والی امداد نہ بڑھا سکے اور وہاں معیشت بحال نہ ہو سکی تو اس موسم سرما میں، لاکھوں افغان ہجرت اور فاقہ کشی میں سے کسی کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں گے"۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہم تباہی کی الٹی گنتی پر ہیں اور اگر ہم نے اس وقت کوئی اقدام نہ کیا تو ہمیں ایک مکمل تباہی درپیش ہو گی۔"
اسلام پسند طالبان نے اگست میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ ان کی عبوری حکومت نے استحکام بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
لیکن سخت گیر تحریک کی اقتدار میں واپسی نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سےکابل پر اقتصادی پابندیوں کو جنم دیا جس کے نتیجےمیں طالبان کی تقریبا ً دس ارب ڈالر کے ان افغان اثاثوں تک رسائی روک دی گئی جو زیادہ تر امریکی فیڈرل ریزرو کے پاس ہیں۔
پابندیوں نےاقتصادی بدحالی کے امکانات کو بڑھا دیا ہے، جو ناقدین کے بقول،لاکھوں لوگوں کو درپیش انسانی بحران کو مزید بد تر کر دے گی۔
واشنگٹن اور یورپی ممالک نے طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے یا ان کی عبوری حکومت کو قانونی حیثیت دینے سے انکار کر دیا ہے، لیکن انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ افغانوں کو انتہائی ضروری انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھنے کے انتظامات کریں گے۔
پڑوسی ملک، بشمول چین، پاکستان اور ایران، پہلے ہی امدادی سامان بھیج چکے ہیں اور انہوں نے باقاعدہ بنیادوں پر مزید امداد بھیجنے کا وعدہ کیا ہے، تاکہ طالبان حکومت کو خوراک کے بحران سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔
SEE ALSO: عالمی ادارے پاکستان کے راستے افغانستان میں امدادی سامان پہنچا رہے ہیںاطلاعات کے مطابق، افغانستان کے مغربی حصے میں ہزاروں غریب خاندان پہلے ہی اپنے ریوڑ بیچ چکے ہیں اور پناہ اور معاونت کی تلاش میں بھاگ کر بڑے شہروں کے قریب عارضی کیمپوں میں پہنچ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اس وقت جس پیمانے کی امدادی ضروریات در پیش ہیں انہیں پورا کرنے کے لئے بے مثال سطح کے وسائل متحرک کرنے کی ضرورت ہوگی۔
ادارے نے اپنےانسانی امدادی منصوبے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے درکار فنڈز میں سے صرف ایک تہائی وصول ہوئے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال خشک سالی کے حالات 2022 میں بھی جاری رہ سکتے ہیں۔
ایف اے او اور ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کو فنڈنگ کی بہت زیادہ کمی سے اور عالمی برادری کو اس بارے میں خبردار کرتے رہے ہیں کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے وہ فوری طور پر کوئی کارروائی کرے۔
بیسلی نے خبردار کیا کہ، "بھوک بڑھ رہی ہے اور بچے مر رہے ہیں۔ ہم وعدوں سے لوگوں کی بھوک نہیں مٹا سکتے۔ فنڈنگ کے وعدوں کو نقدی کی شکل دینے کی ضرورت ہے، اور بین الاقوامی برادری کو اس بحران سے نمٹنےکےلئے اکٹھا ہونا چاہئے، جو بڑی تیزی کے ساتھ قابو سے باہر ہو رہا ہے "۔
دنیا بھر میں بچوں کے حقوق اور مفادات کے علمبردار ادارے سیو دی چلڈرن نے پیر کے روز کہا کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے تجزیے سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس موسم سرما میں تقریباً 14 ملین بچوں کو بحران یا خوراک کی ہنگامی سطح کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ،" پانچ ملین بچے اس وقت قحط سے صرف ایک قدم کی دوری پر ہیں۔"
امدادی ادارے نے اس ہفتے کی میڈیا رپورٹس کی طرف اشارہ کیا جن میں کہا گیا کہ کابل میں ایک ہی خاندان کے آٹھ بچے اپنے والدین کو کھو کر بھوک سے مر گئے۔ چار لڑکوں اور چار لڑکیوں پر مشتمل ان بہن بھائیوں کی عمریں صرف 18 ماہ اور آٹھ سال کے درمیان تھیں۔
افغانستان میں سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر کرس نیامندی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ افغان بچوں کے مصائب کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ عشروں کی جنگ اور ابتلا کے بعد انہیں اب ملکی تاریخ میں بھوک کے بد ترین بحران کا سامنا ہے۔
نیامندی نے کہا کہ، "صورتحال پہلے ہی مایوس کن ہے۔ ہم ہر روز اپنے کلینکس میں چھوٹے بچوں کو دیکھتے ہیں جو غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہیں، کیونکہ ان کے پاس کھانے کے لیے روٹی کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔"