افغانستان کے لیے نقد ایرانی امداد کے منفی اثرات

افغانستان کے لیے نقد ایرانی امداد کے منفی اثرات

نقد رقم سے بھرے ہوئے تھیلے ایران سے کابل پہنچانے والے شخص صدر حامد کرزئی کے چیف آف اسٹاف عمر داود زئی ہیں۔ وہ ایران میں افغانستان کے سابق سفیر ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ مسٹر کرزئی کو مغرب کے خلاف بھڑکاتے رہتے ہیں۔ اخبار یو ایس اے ٹوڈے کی سابق رپورٹر سوسین بینٹ کہتی ہیں کہ مسٹر داود زئی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بڑی پُر تعیش زندگی گزارتے ہیں۔

گذشتہ ہفتے افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے تسلیم کیا کہ انھیں باقاعدگی سے ایران سے نقد رقم سے بھرے ہوئے تھیلے ملتے رہے ہیں ۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس انکشاف سے افغان حکومت کے بارے میں بدعنوانی کا تاثر اور مضبوط ہوا ہے۔

افغانستان میں حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے سخت سفارتی کوششوں کے باوجود اس انکشاف سے کہ صدر حامد کرزئی نے ایران سے کئی بار نقد رقم وصول کی ہے ان کی حکومت اور نیٹو اتحاد کے درمیان نئی کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔

کابل میں ایک پریس کانفرنس میں جس کے دوران ان کا لب و لہجہ کسی حد تک تلخ ہو گیا صدر کرزئی نے کہا کہ یہ رقم اس لیے ادا کی جاتی ہے کیوں کہ ایرانی افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ ”صدارتی آفس کی مدد کے لیے اور یہاں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کی مختلف طریقوں سے مدد کے لیے کئی دوست ممالک نقد رقم کی ادائیگی کرتے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے “۔

مسٹر کرزئی نے یہ باتیں اخبار نیو یارک ٹائمز میں ایک مضمون کی اشاعت کے بعد کہیں جس میں کہا گیا ہے کہ افغان قانون سازوں، قبائلی لیڈروں اور طالبان کمانڈروں کی وفا داریاں حاصل کرنے کے لیے انہیں نقد رقم ادا کی گئی ہے ۔

افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجوں کے اعلیٰ ترین کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے حال ہی میں وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو بتایا کہ ایک طرف تو ایران کرزئی حکومت کو نقد رقوم بھیج رہا ہے اور دوسری طرف وہ طالبان عسکریت پسندوں کو براہ راست اسلحہ ، تربیت اورپیسہ دے رہا ہے ۔”ایک طرف تو وہ اسلامی جمہوریہ افغانستان کو فنڈز فراہم کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ ان لوگوں کی مدد کر کے جو ملک کے لیے سیکورٹی کے مسائل پیدا کر رہے ہیں، حکومت کی سلامتی کو نقصان پہنچا رہا ہے“ ۔

نقد رقم سے بھرے ہوئے تھیلے ایران سے کابل پہنچانے والے شخص صدر حامد کرزئی کے چیف آف اسٹاف عمر داود زئی ہیں۔ وہ ایران میں افغانستان کے سابق سفیر ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ مسٹر کرزئی کو مغرب کے خلاف بھڑکاتے رہتے ہیں۔ اخبار یو ایس اے ٹوڈے کی سابق رپورٹر سوسین بینٹ کہتی ہیں کہ مسٹر داود زئی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بڑی پُر تعیش زندگی گزارتے ہیں۔

بیرونی ملکوں میں ان کے کئی گھر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ جتنا پیسہ جمع کرتے ہیں اس میں ان کا اپنا حصہ ہوتا ہے ۔مسٹر داود زئی کو جتنا پیسہ دیا جاتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ صدر کرزئی کے اتحاد کے با وجود کرزئی کے اندرونی حلقوں میں ایرانی حکومت نے کس حد تک اپنا عمل دخل کر لیا ہے ۔

اتحادی ملکوں نے 2001میں طالبان کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے اب تک کرزئی حکومت کو اربوں ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد دی ہے ۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی کے نامہ نگار اور Oliver Knox کہتے ہیں کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ایران اپنے ہمسایوں پر اثر ڈالنا چاہتا ہے لیکن مسٹر کرزئی کو نقد رقم سے بھرے تھیلے دینے سے لوگوں پر غلط تاثر پڑتا ہے ۔ اس سے ملک کے اندر مسٹر کرزئی کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی حکومت کے بارے میں مشہور ہے کہ اس میں حد سے زیادہ کرپشن موجود ہے ۔ظاہر ہے کہ ایران سے نقد رقم لینے سے یہ تاثر اور زیادہ مضبوط ہو گا۔

جنرل پیٹریاس کہتے ہیں کہ ایران طالبان کی جو مالی مدد کر رہا ہے، اس کے باوجود ایران یہ بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں اپنی حکومت خود چلانے اور ملک کی سیکورٹی کی ذمہ داری اٹھانے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ نہ تو ایران اور نہ امریکہ کو یہ بات پسند ہو گی کہ افغانستان ایک بار پھر طالبان کے کنٹرول میں آ جائے کیوں کہ اس طرح وہ ایک بار پھر القاعدہ جیسے گروپوں کی پناہ گاہ بن جائے گا۔ ”میرے خیال میں افغانستان کے بارے میں ایران کی سوچ میں ہمیشہ تضاد رہا ہے ۔ ایک طرف تو وہ یہ نہیں چاہتا کہ طالبان پھر واپس آئیں ۔ طالبان بہر حال، سنیوں کی ایک انتہائی قدامت پسند تحریک کی نمائندگی کرتے ہیں جب کہ ایران شیعہ ملک ہے ۔ اس لیے وہ یہ نہیں چاہے گا کہ طالبان واپس آ ئیں“۔

ایران نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ افغان حکومت کو پیسے دیتا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اس رقم کا مقصد افغانستان کی تعمیرِ نو میں مدد دینا ہے۔ جنرل پیٹریاس کہتے ہیں کہ افغانستان میں ایران اور امریکہ کے کچھ مشترکہ مفادات ہیں۔ ان مفادات میں افغانستان میں منشیات کی غیر قانونی صنعت کا خاتمہ شامل ہے کیوں کہ ایران میں منشیات کے استعمال کا مسئلہ بہت سنگین ہوتا جا رہا ہے۔