افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے اعلیٰ ترین کمانڈر نے جنرل ڈیوڈ پیٹریس نے کہا ہے کہ افغان حکومت کے لیے ایران سے نقد رقوم کی فراہمی کے خفیہ مقاصد ہیں ، کیونکہ وہ طالبان کو بھی فنڈز دے رہاہے۔
امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریس نے جمعے کے روز وی او اے کے فارسی نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ افغان حکومت کو فنڈز فراہم کرنے کی ایران کی سرگرمیاں متضادہیں کیونکہ دوسری جانب وہ ملک کی سیکیورٹی کے لیے مسائل پیدا کرنے والوں کی مدد کرکے افغان حکومت کو کمزور کررہاہے۔
جنرل پیٹریس نے کہا کہ ایران کی افغانستان کے لیے ہمیشہ متصادم سوچ رہی ہے۔ انہوں نے اس صورت حال کا عراق میں ایرانی کوششوں سے موازنہ کیا ، جسے انہوں نے تخریبی اور مہلک قرار دیا۔
منگل کے روز ایران نے یہ کہتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ وہ کئی برسوں سے افغان حکومت کو رقوم بھیج رہی ہے اور ان فنڈز کا مقصد تعمیرنو کے کاموں میں افغانستان کی مدد کرنا ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے پیر کے روز کہاتھا کہ ان کے دفتر نے ایران سے رقوم سے بھرے ہوئے تھیلے وصول کیے تھے ، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس رقم میں اور امریکہ اور دوسرے ملکوں سے حاصل ہونے والی رقم میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جنرل پیٹریس نے کہا کہ ایران سے ملنے والی رقوم کے بارے میں صدر کرزئی کا بیان دوٹوک تھا اور ان کے مطابق یہ رقم امریکہ اور دوسرے ملکوں سے ملنے والی رقوم کے مقابلے میں بہت معمولی تھی۔
انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایران ، افغانستان میں اثرو نفود حاصل کرنے کی کوشش کررہاہے۔ جس طرح وہ عراق اور دوسرے ملکوں میں بھی کررہاہے۔ اور وہ جس طرح عراق میں جنگجو انتہاپسندوں کو نہ صرف فنڈز ، تریبت ، ہتھیار اور ہدایات فراہم کرتا رہاہے، اسی طرح افغانستان میں بھی وہ مختلف سیاسی شخصیات کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کررہاہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایران طالبان کو فنڈز، تربیت اور کچھ ہدایات فراہم کرتا ہے، جو اگرچہ عراق کے مقابلے میں چھوٹے پیمانے پر ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران صدرکرزئی کو جومالی امداد دے رہاہے، اس کامقصد افغانستان کو اپنی حکومت چلانے اور امن وامان کے حصول کے قابل بنانا ہے اور امریکہ بھی صدر کرزئی کی اسی مقصد سے امداد کررہاہے۔ کیونکہ صرف اسی صورت میں افغانستان کو دوبارہ ایسی پناہ بننے سے بچایا جاسکتا ہے جیسے 11/9 کے حملوں سے پہلے یہ القاعدہ کی پناہ گاہ تھی۔ ان حملوں کی سازش قندھار میں کی گئی تھی اور ایران نہیں چاہے گا کہ بیشتر علاقے پر طالبان کا دوبارہ قبضہ ہو۔