افغان سکیورٹی افواج نے کہا ہے کہ افغانستان کے مشرقی صوبہٴ ننگرہار میں داعش کے شدت پسند گروہ کے علاقائی صدر دفتر پر کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔
افغان حکام نے کہا ہے کہ داعش کے شدت پسند ننگرہار کے ضلع ہسکہ مینا میں لڑاکوں کی بھرتی اور تربیت کے لیےخود ساختہ ولایتِ خوراسان (صوبہ ٴخوراسان) کا اڈا استعمال کرتے رہے ہیں، جس کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔
افغان فوج کے ذرائع کے مطابق، افغان فوج کی جانب سے داعش کے شدت پسندوں کے خلاف حالیہ حملوں کے نتیجے میں ہسکہ مینا کو کافی حد تک واگزار کرا لیا گیا ہے۔
افغان فوج کے کرنل شیریں آقا نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’اس کارروائی کے نتیجے میں ہم نے متعدد علاقوں کو خالی کرادیا ہے، جس میں ضلعے کے گرگرائی اور شبائی کے دیہات شامل ہیں‘‘۔
آقا نے کہا ہے کہ ’’داعش کے کلیدی اڈے پر قبضہ حاصل کر لیا گیا ہے، جن میں بھرتی کا ایک مرکز بھی شامل ہے‘‘۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ اس کارروائی میں داعش کے 27 لڑاکے ہلاک جب کہ 17 زخمی ہوئے ہیں۔
خوراسان اڈے کو افغانستان میں داعش گروپ کا مضبوط ٹھکانہ خیال کیا جاتا ہے۔ ملک میں حملوں کے لیے گروپ اِسے اپنے علاقائی مرکز کے طور پر استعال کرتا ہے، جس کی لہر جاری ہے۔
مقامی مکینوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ افغان افواج نے ضلعے کے متعدد علاقوں پر قبضہ حاصل کر لیا ہے۔
ایک مقامی مکین نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’حکومتی افواج نے ’گرگرائی ہائی اسکول‘ پر دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا ہے جو داعش کے کنٹرول میں تھا، جسے اب فوجی چوکی میں بدل دیا گیا ہے‘‘۔
ایک ساکن کے الفاظ میں ’’یوں لگتا ہے کہ حکومتی افواج نے تحیہ کر رکھا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھیں گے‘‘۔
گورنر کے ترجمان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ صوبائی حکام بہت جلد لوگوں کو اعانت کی فراہمی کا آغاز کر دیں گے، جنھوں نے داعش کی بربریت کے نتیجے میں تکالیف برداشت کی ہیں۔
افغان حکام نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ہمسایہ ضلع کوٹ میں داعش کے شدت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ سلامتی افواج ایک ماہ کی کارروائی کے دوران داعش کے تقریباً 300 لڑاکوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
داعش ننگرہار کے کئی ایک اضلاع میں متحرک رہی ہے جہاں سے گروپ نے حکومتی افواج اور دیہات پر متعدد حملے کیے۔