افغانستان نے طالبان کے وفد کو پاکستان کا دورہ کرنے کی اجازت دینے پر اپنے اس پڑوسی ملک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
طالبان کے قطر میں واقع سیاسی دفتر نے رواں ہفتے تصدیق کی تھی کہ اس کا ایک تین رکنی وفد پاکستانی حکام سے سرحدی امور اور افغان پناہ گزینوں کو درپیش مشکلات پر قیدیوں کی رہائی کے لیے اسلام آباد گیا تھا۔
جمعرات کو کابل میں صدر اشرف غنی کے ترجمان شاہ حسین مرتضٰوی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان امور سمیت دیگر باہمی معاملات پر افغانستان کی حکومت سے بات چیت کرے۔
"طالبان کا دورہ پاکستان انتہائی قابل اعتراض ہے۔ ایک دہشت گرد گروپ کو کسی ملک کا دورہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔"
ترجمان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکام "دہشت گرد گروپ" کے ساتھ سرحدی تنازعات اور پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کو درپیش مسائل جیسے امور پر تبادلہ خیال نہیں کر سکتے اور ان کے بقول افغان حکومت ایسی بات چیت کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔
"دراصل افغانوں کو اس تشدد اور جرائم کی وجہ سے مجبوراً اپنا ملک چھوڑنا پڑا جو طالبان نے ان پر مسلط کیے"۔
پاکستان نے طالبان کے وفد کی اپنے ہاں آمد کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید۔ بدھ کو سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری سے ایک پریس کانفرنس میں جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ " میرے پاس ایسے کسی دورے کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔"
پاکستان جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں مصالحتی عمل کی کوششوں کا حصہ ہے اور گزشتہ جولائی میں اسی کی میزبانی میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے مابین پہلی براہ راست ملاقات ہوئی تھی۔
تاہم افغانستان میں طالبان کی حالیہ پرتشدد کارروائیوں کے بعد افغان عہدیدار ایک بار پھر پاکستان کو ان کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود افغان مخالف عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا۔
لیکن پاکستان کا یہ موقف ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔
گزشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے ہلاکت خیز حملے کے بعد افغان صدر اشرف غنی کا یہ بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے بات نہیں کریں گے جو بے گناہ افغان شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔