افغان طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد حکام سے بات چیت کے لیے پاکستان بھیجا گیا ہے۔
طالبان کی طرف سے اس توقع کا بھی اظہار کیا گیا کہ اس دورے کے اچھے نتائج نکلیں گے اور یہ رابطہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہو گا۔
طالبان کے مطابق وفد پاکستان میں افغان طالبان قیدیوں، مہاجرین اور بعض سرحدی معاملات پر بات چیت کرنے کے علاوہ خاص طور ملا برادر کی رہائی کے بارے میں پاکستانی حکام سے بات کرے گا۔
افغان طالبان کے سابق نائب امیر ملا بردار کو 2010 میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ افغان مصالحتی عمل میں پیش رفت کے لیے پاکستان نے 2013ء میں افغان حکومت کی درخواست پر اپنے ہاں قید جن طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا اُن میں ملا برادر بھی شامل ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ ملا برادر بدستور پاکستان میں ہیں اور اُن کی نقل و حرکت پر پابندی ہے۔
اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے وفد کی پاکستان آمد کا مقصد افغان حکومت سے مذاکرات کے امکانات کا جائزہ لینا ہے لیکن تاحال پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور طالبان وفد کی یہاں آمد یا اُن سے بات چیت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان افغان مصالحتی عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
اُدھر پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ ’’ہم افغانستان میں بالکل کسی قسم کی بدامنی دیکھنا نہیں چاہتے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ تشدد اور دہشت گردی قابل برداشت نہیں ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفارت کار اور تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ممکن ہے کہ پاکستان نے طالبان کو اس دورے کی دعوت دی ہو۔
’’بظاہر اس مقصد یہ ہی ہے کہ اُن کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ اپنے مجاز نمائندے بات چیت کے لیے یہاں بھیج دیں اور بات چیت میں شامل ہونے کی تیاری کریں، بصورت دیگر اُن کو یہ بتایا جائے گا کہ اس کے نقصان دہ نتائج ہو سکتے ہیں۔‘‘
طالبان کا قطر میں سیاسی دفتر امن مذاکرات کا مجاز ہے اور اس حوالے سے طالبان کے اعلیٰ سطحی وفد کے اس دورے کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
افغان طالبان کی طرف سے اپنا وفد پاکستان بھیجنے کی تصدیق ایسے وقت کی گئی جب رواں ہفتے ہی افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود اُن طالبان کے خلاف کارروائی کرے جو امن مذاکرات سے انکاری ہیں۔
لیکن پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کر رہا ہے اور افغان مصالحتی عمل کے لیے مخلصانہ کوششیں بھی کر رہا ہے۔
دریں اثنا، روس کے ایک خبر رساں ادارے ’انٹرفیکس‘ نے افغانستان میں روس کے خصوصی ایلچی زمیر کابلوف کے حوالے سے بدھ کو خبر دی ہے کہ اگر تمام فریقین کا احترام کیا جائے تو روس افغانستان میں امن کی کوششوں میں شریک ہونے کے لیے تیار ہے۔
زمیر کابلوف نے کہا کہ پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کے تعاون سے ہونے والے مذاکرات کو روس غیرمؤثر سمجھتا ہے اور ان میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا، تاہم ماسکو مذاکرات کو نئی شکل دینے کے لیے تیار ہے۔
گزشتہ ہفتے کابل میں ایک بڑے بم حملے میں لگ بھگ 70 افراد کی ہلاکت اور 300 سے زائد افراد کے زخمی ہونے بعد افغان حکومت نے کہا تھا کہ بات چیت صرف ان طالبان سے کی جائے گی جو تشدد کی راہ ترک کریں گے۔