پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن کی سرحد پر چار ماہ کے بعد تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہو گئی ہیں۔ البتہ لغڑی اتحاد کا ویزے اور پاسپورٹ کی پابندی کے خلاف چمن میں دھرنا بدستور جاری ہے۔
سرحد پر تعینات کسٹم کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کسٹم کے اہلکار گزشتہ چار ماہ کے دوران کلیئرنس کا عمل جاری رکھا ہوا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس تمام عرصے کے دوران کسٹم کے دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ ان کے بقول سرحد کے قریب شاہراہ پر دھرنے کے سبب سڑک بند تھی جس سے تجارتی سرگرمیاں رک گئی تھیں۔
واضح رہے کہ نگراں حکومت نے گزشتہ برس غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کو لازمی قرار دیا تھا۔
نگراں حکومت کے فیصلے کے خلاف 21 اکتوبر 2023 سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی مقام ’بابِ دوستی‘ کی جانب جانے والی سڑک پر چمن کے مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور سیاسی جماعتوں نے احتجاجی دھرنا دے دیا تھا جس مسلسل جاری تھا۔
سرحد پر تجارتی سرگرمیاں بحال ہونے کے حوالے سے دھرنے کے منتظمین کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے چمن 50 ہزار سے زائد تاجر اور مزدور متاثر ہو رہے ہیں۔
بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی نے اس سلسلے میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بارڈر پر تجارتی سرگرمیاں بحال ہو گئی ہیں۔
SEE ALSO: چمن دھرنے کے شرکا کے خلاف پولیس کی کارروائی، متعدد افراد گرفتاران کے بقول بدھ کو پاکستان کی جانب سے 20 سے زائد سامان سے لدی گاڑیاں افغانستان روانہ کی گئی ہیں۔
جان اچکزئی کا دعویٰ تھا کہ نگراں حکومت نے سرحد پر حائل ہر قسم کی رکاوٹ کو دور کر دیا ہے۔
دھرنے کے ترجمان صادق اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا ہے کہ نئی آنے والی حکومت ان کے مطالبات تسلیم کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ شاہراہ بند کر دیں گے جس سے مال بردار گاڑی چمن سرحد سے پار نہیں جا سکیں گی۔
صادق اچکزئی کے مطابق بڑے تاجروں کو سرحد کی بندش سے نقصان ہوا ہے۔ خیر سگالی کے تحت دھرنے کے شرکا نے سرحد کی جانب جانے والی شاہراہ کو بڑی گاڑیوں کے لیے کھول دی ہے۔
صادق اچکزئی نے کہا کہ وہ نئی بننے والی حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ دھرنے میں بیٹھے غریب مزدوروں روزگار کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ نئی حکومت نگراں حکومت کی جانب سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط لاگو کرنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے اور یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔
SEE ALSO: طورخم بارڈر پر تاجروں کی مشکلات؛ 'جن کے ٹرکوں میں پھل اور سبزیاں ہیں وہ تو برباد ہو جائیں گے'واضح رہے کہ بلوچستان کی حکومت نے چمن سرحد کی بندش کے سبب متاثر ہونے والے تاجروں کے لیے گزشتہ برس دسمبر میں خصوصی پیکج کا اعلان کیا تھا جس کے تحت چھوٹے تاجروں کی مالی مدد شروع کی گئی تھی۔ البتہ تاجر اس اقدام سے مطمئن نہیں تھے۔
چمن میں مذہبی علما، قبائلی رہنماؤں اور تاجروں پر مشتمل 15 رکنی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کے سربراہ مولانا حافظ محمد یوسف ہیں۔
مولانا حافظ محمد یوسف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کمیٹی کو حکومت اور دھرنے متظمین کا اعتماد حاصل ہے
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے بعد دھرنے کے منتظمین نے تجارت کے لیے سڑک کھول دی ہے ان کے اس جزبے کی قدر کرتے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی دھرنے منتظمین اور حکومت کے درمیان دیگر مسائل پر بھی مذاکرات ممکن ہیں۔
قبل ازیں دھرنے کے شرکا نے افغانستان سے واپس آنے والے سینکڑوں گاڑیوں کے لیے گزشتہ ماہ راستہ کھول دیا تھا جو تین ماہ سے سرحد کے قریب پھنسے ہوئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وفاقی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر دارو خان اچکزئی کہتے ہیں کہ چار ماہ سے سرحد پر تجارت بند ہونے کی وجہ سے تاجروں کو نقصان ہوا ہے۔
انہوں دھرنے کے شرکا کی جانب سے گاڑیوں کو سرحد پار جانے کی اجازت دینے کے اقدام کو قابلِ تحسین قرار دیا ہے۔
سڑک کھولنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ حکومت کا نہیں بلکہ چمن میں دھرنے کے منتظمین کا ہے جن کی جانب سے تجارت کی بحالی کے لیے بند کی جانے والی سڑک کھول دی گئی ہے۔